پاکستان نے گذشتہ کچھ مہینوں میں سرمایہ کاری کے موقعوں کو نمایاں کرنے کے لیے اپنی تشہیری مہم میں تیزی لائی ہے۔
اوورسیز پاکستانی کنونشن کے شاندار سٹیج سے لے کر پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم تک، اسلام آباد کا پیغام بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ ’پاکستان کاروبار کے لیے کھلا ہے۔‘
وزیرِاعظم کے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام اور معدنی شعبے میں مکمل تبدیلی کے وعدے یقیناً پرعزم ہیں، لیکن وعدے چاہے کتنے ہی دلکش ہوں، مسئلہ وہی پرانا ہے یعنی پاکستان کی سرمایہ کاری کانفرنسیں زمینی حقیقتوں سے میل نہیں کھاتیں۔
سمٹ اور کنونشنز سرمایہ کاری کے شعبے کی تشہیری مہم کی رفتار تو بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ پالیسی کی یقینی صورت حال یا ادارہ جاتی اصلاحات کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔
طویل مدتی سرمایہ کار ایسے ماحول کے متلاشی ہوتے ہیں جہاں سرکاری اور نجی معاہدوں کا احترام کیا جائے، قوانین مستحکم ہوں اور اثاثے محفوظ ہوں۔
جب تک ان بنیادی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، اس وقت تک چاہے جتنا بھی شاندار فورم ہو، وہ محض فوٹو سیشن بن کر رہ جاتا ہے۔ اب آئیں بنیادی چیلنجز کی طرف۔
سرمایہ کار ہمیشہ خطرات سے بھاگتے ہیں اور پاکستان کے اندرونی سکیورٹی حالات تاحال غیر یقینی ہیں۔
سکیورٹی صرف تشدد کو روکنے کا نام نہیں، بلکہ مستحکم حالات یقینی بنانے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔
جب بات طویل مدتی سرمایہ کاری کی ہو تو سیاسی، قانونی یا زمین پر غیر یقینی کی محض ایک جھلک بھی سرمایہ کاروں کو کسی اور طرف لے جا سکتی ہے۔
اگلا نکتہ طرز حکمرانی اور ادارہ جاتی ساکھ ہے۔ بدعنوانی کے خلاف پاکستان کی درجہ بندی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔
پاکستان حکومت کی زرمبادلہ کے ذخائر کے تحفظ کے لیے حالیہ درآمدی پابندیوں نے مینوفیکچرنگ اور سپلائی چین کو شدید متاثر کیا۔
ایجادات اور خیالات کے حقوق کی خلاف ورزی سرمایہ کاروں کو دور کرتی ہے اور نئی سوچ یا ترقی کو روک دیتی ہے۔
صوبوں میں مختلف کان کنی کی پالیسیوں جیسی شعبہ جاتی خرابیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے مزید رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔
اب ذرا نازک معاشی صورت حال پر بھی نظر ڈالیں۔ پاکستان ماضی قریب میں دیوالیہ ہونے سے بمشکل بچ پایا۔
اگرچہ آئی ایم ایف پروگرام نے وقتی ریلیف دیا لیکن طویل مدتی سرمایہ کاروں کا اعتماد تبھی حاصل ہوگا جب پاکستان وہ تمام ساختی اصلاحات مکمل طور پر نافذ کرے جن کا وعدہ آئی ایم ایف اور دیگر ڈونرز سے کیا گیا ہے۔
اور علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کے اشتراک کا کیا حال ہے؟ یا یوں کہیں کہ اس کی کمی کا؟ پاکستان کی جی ڈی پی میں تجارت کا تناسب تشویش ناک حد تک کم ہے۔
انڈیا کے ساتھ تجارت کی بندش اور دیگر ہمسایہ ممالک سے تجارت پر سخت ضوابط کی وجہ سے پاکستان اربوں ڈالر کے مواقع سے محروم ہو چکا ہے۔
برآمد کنندگان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ سرحدی عمل آسان بنایا جائے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لائے جائیں تاکہ علاقائی منڈیوں کو کھولا جا سکے۔
آگے بڑھنے کا راستہ سب جانتے ہیں مگر اس کے لیے سیاسی عزم اور ریاست کے تمام اداروں کی مستقل مزاجی ضرور ہے۔ جان، مال اور منافع کا تحفظ وہ بنیادی نقطہ آغاز ہے جس سے پاکستان کی ساکھ بہتر بن سکتی ہے۔
طرز حکمرانی کے اشاریے مضبوط کیے جانے چاہییں کیونکہ مقامی اور غیر ملکی دونوں سرمایہ کار ان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
سول سروس ترقیاتی نظم و نسق کا ستون ہوتی ہے جو عوامی پالیسی کو عملی پروگراموں میں ڈھالنے اور بنیادی خدمات کی فراہمی کی ذمہ دار ہے۔ اس اہم ادارے کی بحالی کے لیے مکمل تنظیم نو ضروری ہے۔
نجی سرمایہ کو متوجہ کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے مضبوط قانونی تحفظات بھی ضروری ہیں۔ اس کا آغاز جائیداد کے حقوق اور معاہدوں کے نفاذ سے ہوتا ہے جو آزاد عدلیہ اور موثر کمرشل عدالتوں کے ذریعے ممکن ہے۔
تنازعات کو حل کرنے کے لیے شفاف نظام اور واضح ضوابط سرمایہ کاروں کو یہ اعتماد دیتے ہیں کہ ان کی سرمایہ کاری کسی بھی غیر منصفانہ اقدام یا ضبطی سے محفوظ رہے گی۔
ہر قیمت پر نجی سرمایہ کاروں کو ٹیکس محکموں اور ریگولیٹری اداروں میں موجود کرپٹ اور استحصالی رویوں سے بچایا جانا چاہیے جو ان کے اعتماد کو ختم کرتے ہیں۔
سرمایہ کاری محتسب کے تقرر، فوری شکایتی نظام اور ریگولیٹرز کو سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھنا، سب اس اعتماد سازی کے عمل میں مدد دے سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترقی پذیر ممالک اپنئی سافٹ پاور اور اقتصادی سفارت کاری کو سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے موثر طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
پاکستان بھی اپنی ثقافتی اور سفارتی طاقت کو اقتصادی مراعات کے ساتھ جوڑ کر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
اس کے لیے ایک ایسی حکمت عملی اپنانی ہوگی جو اس کے متحرک بیرون ملک مقیم شہریوں اور جغرافیائی محل وقوع کو اجاگر کرے۔
پاکستان کا مسلم دنیا میں اثر اور خلیجی ممالک، برطانیہ اور شمالی امریکہ میں مضبوط تعلقات اس کی سفارتی رسائی کو بڑھاتے ہیں۔
نجی شعبہ بار بار اس بات کو اجاگر کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں انسانی وسائل کی کمزوری ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس کا حل یہ بتایا جاتا ہے کہ سکولوں اور جامعات کے نصاب کو جدید بنایا جائے تاکہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، ریاضی اور ڈیجیٹل مہارتوں کو ترجیح دی جا سکے، ہنر مندی کے تربیتی پروگراموں کے لیے پبلک پرائیویٹ شراکت داری کو فروغ دیا جائے اور ہنر مند افراد کے لیے واضح مراعات اور محفوظ کیریئر فراہم کیے جائیں تاکہ وہ ملک میں ہی کام کریں۔
پاکستان کی شبیہ کو مثبت انداز میں پیش کرنے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے بامعنی اقدامات ناگزیر ہیں۔
اوورسیز پاکستانیوں کو صرف زر مبادلہ کے حصول کے علاوہ اصلاحات میں فعال شراکت دار کے طور پر شامل کریں جو ملک کے مستقبل سے وابستگی اور ان کو اپنا سمجھنے کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے شروع کیے گئے ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس جیسی کامیاب کہانیاں دکھا کر، پاکستان منفی تاثر کو چیلنج کر سکتا ہے اور خود کو ایک جدید خیالات کا مرکز ثابت کر سکتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے وہ سفارت کاری جو اصلاحات پر ہونے والی حقیقی پیش رفت کو اجاگر کرے، اندرون و بیرون ملک اعتماد پیدا کرے گی۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کے نظام میں موجود بنیادی خامیوں کو ہمیشہ سہارا نہیں دے سکتے، نہ ہی پاکستان کے خلیجی اتحادی یا چین کسی خاطر خواہ اصلاحات کے بغیر بار بار مالی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
حقیقی سرمایہ کاری کا انحصار اعتماد پر ہے اور اعتماد مضبوط اداروں سے قائم ہوتا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار اس پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہیں مکمل طور پر سب کچھ درست نہیں چاہیے بلکہ انہیں صرف یہ چاہیے کہ حالات قابل بھروسہ ہوں، سرمایہ محفوظ ہو اور پالیسیوں میں تسلسل ہو۔
بشکریہ عرب نیوز: اس کالم کے مصنف ڈاکٹر وقار احمد ایک ماہر معیشت اور سابق سول افسر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔