انڈین حکومت پالیسی یوٹرن لیتے ہوئے آئندہ مردم شماری میں ذات پات سے متعلق تفصیلات جمع کرے گی۔ یہ وہ فیصلہ ہے، جس کے بڑے پیمانے پر سیاسی و معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
وزیر اطلاعات اشونی ویشنو نے بدھ کو اعلان کیا کہ مردم شماری میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی سینکڑوں ذاتوں اور ذیلی ذاتوں کی آبادی شمار کی جائے گی، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ عمل کب شروع ہو گا۔
ہر 10 سال بعد ہونے والی مردم شماری 2021 میں ہونی تھی، لیکن پہلے کرونا وبا اور پھر انتظامی رکاوٹوں کے باعث مؤخر ہو گئی۔
انڈیا میں آخری بار ذات پر مبنی قومی مردم شماری 1931 میں برطانوی دورِ حکومت میں کی گئی۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں اور کارکن بارہا اس ڈیٹا کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، لیکن نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت یہ مؤقف اپناتے ہوئے اس کی مخالفت کرتی رہی ہے کہ اس سے سماجی تقسیم مزید گہری ہو جائے گی۔
انڈیا کی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد آبادی میں سے اندازاً دو تہائی لوگ اس قدیم سماجی درجہ بندی کے نچلے طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو ہندوؤں کو پیدائش کی بنیاد پر درجات میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری صرف اکثریتی مذہب ہندو مت تک محدود ہو گی یا اس میں اسلام، مسیحیت اور سکھ مذہب کو بھی شامل کیا جائے گا، جو انڈیا میں ذات پات کے نظام سے یکساں طور پر متاثر ہیں۔
ذات پات کا نظام کیا ہے اور مردم شماری کیوں اہم ہے؟
ذات پات کا نظام سخت سماجی درجہ بندی والا نظام ہے، جو ہزاروں سال پرانا ہے اور آج بھی انڈین طرز زندگی اور سیاست میں گہری جڑیں رکھتا ہے، جہاں نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو معمول کی بات ہے۔
ملک میں سینکڑوں ذاتیں اور ذیلی ذاتیں ہیں، جو زیادہ تر خاندانی پیشوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔ تقریباً 20 کروڑ دلت، جنہیں پہلے ’اچھوت‘ کہا جاتا تھا، اس درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر سمجھے جاتے ہیں اور انہیں اکثر امتیاز اور تشدد کا سامنا رہتا ہے، حالاں کہ انڈیا میں اچھوت پن کو 1955 میں قانونی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔
1947 میں آزادی کے بعد سے، انڈیا نے مردم شماری میں صرف دلتوں اور مقامی قبائلیوں، جنہیں بالترتیب چھوٹی ذات اور چھوٹا قبیلہ کہا جاتا ہے، کو علیحدہ درج کیا۔ باقی تمام ذاتوں کو ’عام‘ قرار دیا گیا۔
مرکزی اور ریاستوں کی حکومتیں تاریخی طور پر محروم نچلی ذاتوں کے افراد کو کالجوں، سرکاری ملازمتوں اور قانون ساز اداروں، بشمول پارلیمنٹ، میں مخصوص تعداد میں نشستیں فراہم کرتی ہیں۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ حکومت کی معاونت کے مستحق افراد کے بارے میں زیادہ درست اور تفصیلی کوائف حاصل کرنا ضروری ہے، جب کہ ناقدین کہتے ہیں کہ ذات کے تصور کی ایک ایسے ملک میں کوئی جگہ نہیں جو عالمی طاقت بننے کی خواہش رکھتا ہو۔
نئی گنتی سے کوٹے اور دیگر امدادی منصوبوں کو بہتر طور پر تیار کرنے میں مدد ملے گی، کیوں کہ موجودہ کوٹے کئی دہائیوں پرانے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ موجودہ منصوبے ان ذاتوں کے لیے ناکافی ہیں، جنہیں ’پسماندہ ذاتیں‘ کہا جاتا ہے، حالاں کہ ان کی آبادی میں خاصی بڑی نمائندگی ہے۔
مودی حکومت کی جانب سے مردم شماری میں ذات کو شامل کرنے کا فیصلہ بڑا یو ٹرن سمجھا جا رہا ہے۔ محض ایک سال سے بھی کم عرصہ قبل نریندر مودی نے ذات پر مبنی مردم شماری کو اپوزیشن جماعتوں کی ’انتہائی بائیں بازو‘ کی سوچ قرار دیا۔
تاہم نئے فیصلے کے اعلان کے بعد مودی کے قریبی ساتھی، وزیر داخلہ امت شاہ نے اسے ’تاریخی‘ قرار دیا۔
امت شاہ نے کہا کہ ’یہ فیصلہ معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ تمام طبقات کو بااختیار بنائے گا۔‘
مردم شماری میں ذات کو شامل کرنے کا اعلان مشرقی ریاست بہار میں انتخابات سے پہلے کیا گیا۔ بہار میں ذات ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے، جہاں نریندر مودی کی جماعت بی جے پی سمیت ایک اتحاد اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کابینہ بریفنگ کے دوران اشونی ویشنو نے کہا کہ ’کئی ریاستوں نے ذاتوں کو شمار کرنے کے لیے سروے کیے۔ کچھ نے یہ کام اچھی طرح کیا، جب کہ کچھ نے یہ مکمل طور پر سیاسی مقاصد کے تحت، غیر شفاف طریقے سے کیا۔‘
انہوں نے استدلال کیا کہ مردم شماری میں ذات کی تفصیلات شامل کرنے سے اس عمل میں انفرادی ریاستوں کے سروے کی نسبت زیادہ شفافیت آئے گی۔
گذشتہ سال جنوبی ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ نے ذات پر مبنی سروے کروانے کا اعلان کیا جب کہ بہار نے 2022 میں ذات پر مبنی مردم شماری جاری کی۔
اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے بارہا سماجی و معاشی اعتبار سے ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کیا اور سرکاری ملازمتوں اور تعلیم میں پسماندہ ذاتوں کے لیے کوٹے کی حد 50 فیصد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم کی حمایت کی۔
گذشتہ سال انہوں نے کہا: ’ذات کی بنیاد پر مردم شماری کا مقصد صرف مختلف ذاتوں کی تعداد جاننا نہیں بلکہ ملک کی دولت میں ان کی شراکت کو بھی سمجھنا ہے۔‘
مودی حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہم ذات پر مبنی مردم شماری کو ترقی کے ایک نئے زاویے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم اس راستے کو کسی نہ کسی طرح آگے لے کر جائیں گے۔‘
ذات پر مبنی مردم شماری کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سماجی تقسیم کو بڑھا سکتی ہے اور کوٹہ مخصوص کرنے کے مطالبات میں اضافے کا باعث بنے گی۔
اس وقت انڈیا میں ذات کی بنیاد پر کوٹے کی مجموعی حد 50 فیصد مقرر ہے، جس میں سے ’دیگر پسماندہ طبقات‘ جو کئی دہائیوں سے سرکاری طور پر شمار نہیں کیے گئے، کو اکیلے ہی 27 فیصد حصہ دیا گیا ہے۔
© The Independent