آصف، عائشہ اور اویس صرف تین ریپ فنکار نہیں، بلکہ تین چراغ ہیں جو لیاری کی ان اندھیری گلیوں میں جل رہے ہیں جہاں کبھی خواب دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
ان ریپ گلوکاروں کا فن، ان کی زبان اور ان کے الفاظ کراچی کی حقیقت ہیں جنہیں وہ بیٹ کے ذریعے دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔
لیاری کے گلی کوچوں سے ابھرتی ہوئی ایک آواز آصف بالی کی ہے جو جرائم سے بچ کر ریپ سٹار بنے۔
آصف بالی جو کبھی جرم کی دہلیز پر کھڑے تھے، مگر آج ’ابا والوں گینگ‘ کے نام سے یوٹیوب پر ہزاروں دلوں کی آواز بن چکے ہیں۔
آصف بالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اپنی زندگی کی تلخ حقیقتیں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر موسیقی نہ ہوتی تو شاید میں آج کسی جرم میں ملوث ہوتا۔ میرا بچپن لیاری کی انہی گلیوں میں گزرا جہاں شام ڈھلتے ہی ہوائی فائرنگ، گٹر کا پانی، اور منشیات کے عادی چہروں کا سامنا روز کا معمول ہوتا۔ بجلی کے بغیر کمرے، پانی کی تلاش میں لمبی قطاریں، گلی کے نکڑ پر کھڑے ’لفنگے‘، یہ سب اس کی زندگی کے سچے مناظر تھے۔‘
وہ ایک وقت میں جرائم کے راستے پر چل پڑے تھےاور جیل کی ہوا بھی کھائی۔
یہ صرف ایک موسیقار کی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسے نوجوان کی داستان ہے جنہوں نے کراچی کی تنگ و تاریک گلیوں میں آنکھ کھولی، جہاں غربت، بے روزگاری اور تشدد معمول کی بات ہے لیکن انہوں نے ان سب محرومیوں کو ایک ہتھیار بنایا اور وہ ہتھیار تھا۔
کراچی کے قدیم علاقے لیاری کی تنگ گلیوں اور محرومیوں سے نکل کر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے آصف بالی یوٹیوب پر اپنی منفرد شناخت بنا چکے ہیں۔ آصف نہ صرف ’ابا والوں گینگ‘ کے بانی ہیں بلکہ اپنی ریپ شاعری کے ذریعے کراچی کے اصل چہرے کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے ’اسلام و علیکم‘ کے عنوان سے ایک ریپ سانگ ریلیز کیا،جس میں ریپ کی دنیا میں ابھرتا ہوا شادی شدہ جوڑا: عائشہ عرف اے کے سکائی اور اویس عرف او وی اے جی جی۔ اس گانے میں کراچی کے رنگ، اس کی گلیاں، ثقافت، اور یہاں بسنے والی مختلف قومیتوں کی نمائندگی کی گئی ہے۔ آصف کے مطابق وہ اور ان کی ٹیم ’چھوٹی گلیوں کے بڑے ستارے‘ ہیں۔
آصف کا کہنا ہے کہ یہی آرٹ ان کے لیے ایک نئی امید اور نئی راہ لے کر آیا۔ اس سے پہلے آصف ’کراچی کے حالات‘، ’شکراللہ‘ اور ’کراچی ڈھونڈ‘ جیسے ریپ سانگز کے ذریعے شہر قائد کی تلخ حقیقتوں کو موسیقی میں ڈھال چکے ہیں۔
آصف کے گانوں کی ویڈیوز میں کوئی مہنگا سیٹ یا فلمی چمک نہیں ہوتی۔ وہی ابلتے گٹر، ٹوٹی سڑکیں، بچوں کی مایوس آنکھیں، اور کچرے کے میدانوں میں کھیلتے خواب یہ سب ہی اس کی موسیقی کا پس منظر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میں جو دیکھتا ہوں، وہی لکھتا ہوں۔ کیونکہ یہ شہر خوبصورت ہے، مگر زخمی بھی۔‘
آصف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریپ خود سیکھا یوٹیوب ویڈیوز دیکھ کر، دوستوں کی مدد سے، اور مسلسل محنت کے ذریعے۔ آج ان کے یوٹیوب چینل پر 19 ہزار سے زائد سبسکرائبرز موجود ہیں اور ان کی ویڈیوز پر لاکھوں ویوز آ چکے ہیں۔
تاہم، آصف بالی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ سندھ کی وزارت ثقافت نے لیاری جیسے علاقوں کے فنکاروں کو کبھی وہ پلیٹ فارم فراہم نہیں کیا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ان کے مطابق، ریپ انڈسٹری میں بھی مخصوص لابیز ہیں جو نئے ٹیلنٹ کو آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کو یوٹیوب کے ذریعے عوام تک پہنچاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین سنگر ہنی سنگھ کا اعتراف
آصف بالی کے سفر میں ان کے کچھ ہم سفر بھی ہیں، جنہوں نے نہ صرف اس کے ساتھ مائیک شیئر کیا بلکہ خواب بھی۔ ان میں سے ایک نمایاں نام ہے عائشہ کا جو ریپ کی دنیا میں ’اے کے سکائی‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ ان کے شوہر اویس کو ریپ کمیونٹی میں ’او وی اے جی جی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں مل کر نہ صرف گانے بناتے ہیں بلکہ ایک پیغام بھی دیتے ہیں کہ ’شوق کی کوئی جنس نہیں، کوئی حد نہیں۔‘
عائشہ اے کے سکائی کی مقبولیت صرف مقامی سطح تک محدود نہیں رہی، بلکہ ان کا ریپ بین الاقوامی سطح پر بھی سنا گیا اور سب سے بڑا اعتراف اس وقت سامنے آیا جب انڈیا کے معروف ریپ سٹار یو یو ہنی سنگھ نے نہ صرف عائشہ کے گانے کو سراہا بلکہ انہیں انسٹاگرام پر فالو بھی کیا۔
عائشہ بھی ابا والوں گینگ میں ریپر ہیں انہوں جے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ لمحہ میرے لیے ایک خواب جیسا تھا، جب یویو ہنی سنگھ جیسے بڑے میوزک آئیکون نے میرے فن کو سراہا۔ ہنی سنگھ نے میرے کے کام کی تعریف کی اور مستقبل میں ممکنہ تعاون کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔‘
عائشہ کا کہنا ہے کہ ان کا اصل مقصد صرف شہرت نہیں بلکہ فن کے ذریعے اپنی کمیونٹی اور خواتین کو ایک نیا حوصلہ دینا ہے۔
عائشہ ایک باحجاب ریپر ہیں، عائشہ کا کہنا ہے کہ عبایا ان کی شناخت ہے۔ وہ اس کو چھوڑ کر نہیں، ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہیں۔
ان کے بقول: ’ریپ جیسا میدان جہاں خواتین کو آج بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے، وہ وہاں اپنے وجود، آواز اور تخلیق سے سب کو یہ باور کرانا چاہتی ہیں کہ خواتین صرف سننے کے لیے نہیں، بولنے کے لیے بھی ہوتی ہیں۔
او وی اے جی جی اویس کا کہنا ہےکہ ہم صرف ایک جوڑا نہیں، ایک ٹیم ہیں۔ میں عائشہ کے خواب کا پہرہ دار ہوں۔ ہم دونوں مل کر وہ چیز بنا رہے ہیں جو ہمارے جیسے نوجوانوں کے دل سے نکلتی ہے سچائی، درد، اور امید۔