نصرت فتح علی خاں: غلطی سے قوالوں کے گھر پیدا ہونے والا بچہ اور ریڈیو پاکستان

استاد نصرت فتح علی خاں خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’میرے بزرگوں کا خیال تھا کہ قوّالی یا گانا بجانا بہت مشکل کام ہے اور میں یہ کام نہیں کر سکتا۔‘

16 اگست 2022 کو فیصل آباد میں نصرت فتح علی خان کی 25ویں برسی کے موقعے پر ان کی البم کورز کا ڈسپلے (تصویر: نعیم احمد)

عکسی مفتی ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں ریڈیو لاہور کے ریجنل ڈائریکٹر مسعود قریشی کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں فتح علی خاں اور مبارک علی خاں آئے۔ نصرت کے بارے میں کہنے لگے جناب ہمارا ایک لڑکا ہے جو غلطی سے قوّالوں کے گھر پیدا ہوگیا ہے۔ اس کی آواز ہی نہیں۔ وہ چیخنی سی آواز نکالتا ہے۔ اتنی بڑی اس کی توند ہے۔ ہمیں تو سمجھ نہیں آتی وہ زندگی میں کرے گا کیا؟ سر، خدا کے لیے اسے یہاں کلرک رکھ لیں، آٹھ جماعتیں پاس ہے۔ ‘

عکسی مفتی کہتے ہیں، ’نصرت فتح علی خاں پر رب مہربان تھا۔ حالاں کہ مسعود قریشی نے بہت کوشش کی مگر ریڈیو میں کوئی خالی اسامی نہ مل سکی۔‘

استاد نصرت فتح علی خاں خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’میرے بزرگوں کا خیال تھا کہ قوّالی یا گانا بجانا بہت مشکل کام ہے اور میں یہ کام نہیں کر سکتا۔‘

فرانسیسی صحافی، محقق اور فنونِ لطیفہ کے ماہر پئیر آلیں بو اپنی کتاب ’نصرت فتح علی خان: قوّالی کا پیام رساں‘ میں لکھتے ہیں کہ ’فتح علی خاں اپنے بیٹے کو ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پیشہ ور موسیقاروں کو روایتی معاشرے میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ شاید انھیں یہ بھی خدشہ تھا کہ نصرت جیسا خاموش طبع، شرمیلا اور بھاری بھر کم لڑکا اتنے محنت طلب پیشے سے انصاف بھی کر سکے گا یا نہیں؟ اسی بنا پر ایک طویل عرصے تک اپنے شاگردوں اور موسیقی سے تعلق رکھنے والے احباب کے دائرے سے دور رکھا۔ ‘

موسیقی سے اپنی طبعی دلچسپی کے باعث وہ کبھی کبھار ہارمونیم بھی بجاتے اور گاتے رہے۔

بدقسمتی سے مارچ 1964 میں گلے کے کینسر سے فتح علی خاں دنیا سے گزر گئے۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے نصرت کے چھوٹے بھائی اور راحت فتح علی خاں کے والد فرخ فتح علی خاں کہتے ہیں، ’والد صاحب نے جیب میں ٹافیاں ڈالی ہوتیں، وہ مجھے اور نصرت کو اپنے ساتھ قریب ہی دھوبی گھاٹ لے جاتے۔ خاں صاحب کو ٹافیاں دیتے تو میں لڑتا۔ مجھے دیتے تو نصرت صاحب لڑتے کہ اسے دے رہے ہیں، مجھے نہیں دے رہے۔ دھوبی گھاٹ جا کر بیٹھ جاتے اور پھر وہ بتاتے کہ موسیقی کیا ہے؟ سُر، راگ، ٹھاٹھ، اور وادی سم کیا ہوتے ہیں۔ بعد میں جب والد صاحب کی وفات ہوئی تو چہلم تک بہت مایوسی تھی۔ لوگ باتیں کرتے تھے کہ خاندان کا سربراہ فتح علی خاں تو فوت ہو گیا ہے، اب اس گھر کا کیا بنے گا؟ ہمارے تایا مبارک علی خاں اور سلامت علی خاں تقریباً 80، 80 سال کے تھے۔ چہلم پر خاں صاحب کی دستار بندی تھی، خاندان کے تمام شاگرد اکٹھے تھے۔ ان میں رشید فریدی سب سے نمایاں تھے، وہ نصرت صاحب کو کہنے لگے، ’خلیفہ پگڑی باندھی ہے تو کچھ گا کر بھی سناؤ۔ ‘

خاں صاحب اس وقت بالکل نہیں گاتے تھے وہ اس صورتِ حال میں رونے لگ گئے۔ تب سارے کہنے لگے کوئی بات نہیں، چلیں رہنے دیں۔

دستار بندی کے بعد جب خاں صاحب گھر میں آئے تو اس کمرے میں چلے گئے جہاں والد کی وفات ہوئی تھی۔ جہاں وہ لیٹا کرتے تھے، وہاں پھول پڑے تھے۔ خاں صاحب وہاں بیٹھ گئے اور رونا شروع کر دیا۔ وہ بہت روئے اور روتے روتے وہیں سو گئے۔ ‘

رشید فریدی دراصل فتح علی خاں کے سب سے ہونہار اور نمایا ں شاگرد تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ فتح خاں صاحب کے بعد انھیں خلیفہ بنایا جائے گا، مگر گھر کے بڑوں نے خاندان کی سربراہی کی پگڑی نصرت فتح علی خاں کے سر پر رکھ دی۔

دستار بندی کے موقع پر رشید فریدی کا نصرت کے گانے پر اصرار کرنا دراصل اس بات کا اظہار تھا کہ فتح علی خاں کا نائب بننے کا حق تو میرا ہے۔ مگر یہ عزت نصرت کو دے دی گئی ہے جب کہ اسے تو گانا ہی نہیں آتا۔

اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ نصرت نے اپنے آپ کو کیسے منوایا۔

نصرت فتح علی خاں صاحب ایک انٹرویو میں خود بیان کرتے ہیں کہ ’میں نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ مارچ 1965 میں ہونے والے سالانہ جشنِ بہاراں میں میری پہلی پرفارمنس تھی۔

جشن بہاراں کی پرفارمینس سے پہلے ذرا ریڈیو پاکستان کا ذکر کرتے ہیں۔

نصرت کی ابتدائی تربیت اور حوصلہ افزائی میں ریڈیو پاکستان کا انتہائی کلیدی کردار رہا۔

ریڈیو پاکستان لاہور کی ایک روایت رہی ہے کہ ہر جمعے کو سٹوڈیو میں قوّالی ہوتی، جو براہِ راست نشر ہوتی۔ یہ روایت کسی نہ کسی صورت میں موجودہ صدی کی پہلی دہائی تک جاری رہی۔

اب نصرت کی تیاری ان کے تایا مبارک علی خاں اور سلامت علی خاں کی صحبت میں ہو رہی تھی۔ وہ ہر مہینے قوّال پارٹی کے ساتھ لائل پور سے ریڈیو پاکستان لاہور آنے لگے۔

اس زمانے میں میوزک کے پروڈیوسر عبد الشکور بیدل تھے۔ بیدل صاحب کا تعلق لاہور کے بیڈن روڈ پر رہنے والے موسیقی کے ایک گھرانے سے تھا۔ وہ مشہور موسیقار خیام کے بھائی تھے۔

سینئر براڈ کاسٹر افضل رحمان صاحب انڈیپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں، ’والد کی وفات کے بعد خاندان والوں نے نصرت کو قوال پارٹی کے ساتھ کورس میں آوازیں لگانے والوں میں جگہ دی ہوئی تھی۔ وہ پچھلی صف میں بیٹھ کر ٹیپ کے مصرعے دہرا رہا تھا۔ یہ 60 کی دہائی کی بات ہے، تب عبدالشکور بیدل صاحب نے انہیں ریڈیو پاکستان کی قوالی کے دوران دیکھا اور کہا کہ اس بچے کا سُر کلام تو بہت اچھا ہے۔ اسے پیچھے سے اٹھا کر اگلی صف میں بٹھائیں۔

قوال پارٹی کے سربراہ نے یہ بات رد کرتے ہوئے کہا، ’یہ ہمارا اپنا معاملہ ہے، آپ اس میں مداخلت نہ کریں۔ ‘

مگر بیدل صاحب اپنی بات پر اڑ گئے اور انہوں نے کہا ایسا ہے تو پھر آپ کی قوالی نشر ہی نہیں ہو گی۔

بات بڑھ گئی تو معاملہ سٹیشن ڈائریکٹر تک چلا گیا۔ شمس الدین بٹ اس زمانے میں سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے شکور صاحب کو بلایا اور کہا کہ یہ جیسے کہتے ہیں کر دیں، ہمیں کیا، ہم نے تو لوگوں کو قوالی ہی سنانی ہے۔ باقی یہ جانیں اور ان کا کام۔

بیدل صاحب نے کہا، ’جب نصرت ہی سب سے اچھا فنکار ہے تو لیڈ کیوں نہ کرے؟ جب وہ اپنی بات سے نہ ہٹے تو قوال پارٹی بغیر قوالی کیے ناراض ہو کے چلی گئی۔ اگلی دفعہ قوّال پارٹی آئی تو طے یہ پایا کہ خاندان کا دوسرا لڑکا بھی نصرت کے برابر بیٹھ کر قوّالی کرے گا۔ جب قوّالی شروع ہوئی تو شکور صاحب کی بات درست ثابت ہوئی۔ نصرت سُر کلام، سَرگم، ادائیگی، مُرکیاں، پلٹے، ہر میدان میں دوسرے لڑکے سے آگے تھے۔ یوں نصرت فتح علی خان کا نیا جنم ہوا، پھر وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ آگے ہی بڑھتے رہے۔

اس واقعہ کو فرانسیسی محقق پئیر آلیں بو نے بھی اپنی کتاب میں ذرا مختلف انداز میں لکھا ہے۔

ریڈیو پاکستان کے تین سینیئر براڈ کاسٹرز اور پروڈیوسرز اعظم خاں، ریاض محمود اور افضل رحمان صاحب سے جب ہم نے اس واقعے کی تصدیق کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں یہ تو ریڈیو لاہور کا بہت مشہور واقعہ ہے۔

افضل رحمان کا کہنا ہے کہ نصرت کا خاندان ’گڈّے والے قوّال‘ کے نام سے معروف تھا۔

ریاض محمود کے مطابق چونکہ فتح مبارک قوال ایک سٹیشن ویگن میں ریڈیو لاہور آیا کرتے تھے۔ ویگن کا رنگ گولڈن، میلا سا تھا اور اس کی باڈی دیکھ کر لگتا تھا جیسے لکڑی کی ہو۔ شاید گاڑی کے رنگ ڈھنگ کی وجہ سے ریڈیو کی حد تک وہاں کے لوگ قوال پارٹی کو ’گڈے والے قوال‘ کہتے ہوں۔

ریاض صاحب نے ایک پرانی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ قوّال پارٹی کے افراد اس ویگن کے اندر تہہ در تہہ ٹھنسے ہوتے تھے۔ فتح علی خاں کی وفات کے بعد ایک دن دیکھا تو ایک گول مٹول سا لڑکا دھوتی باندھے پھر رہا تھا۔

پوچھنے پر علم ہوا کہ یہ ان کا بیٹا ہے۔ ریاض صاحب نے بتایا کہ 70 کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو سوٹ اور ہیٹ پہنے بھی ریڈیو آتے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تب پتا چلا وہ باہر کے ملکوں میں بھی قوالی کرنے جاتا ہے۔

شکور بیدل صاحب والے واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہ ہوگا کہ خاندان کے لوگ نصرت سے خائف تھے یا اس کے خلاف تھے یا نہیں چاہتے تھے کہ وہ ترقی کرے۔ مبارک علی اور سلامت جیسے تایا کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہی نہ تھا۔ ہو سکتا ہے خاندان والے چاہتے ہوں کہ ہم نصرت کو تب میدان میں اتاریں جب وہ پوری طرح تیار ہو جائے۔

جشن بہاراں کا میلہ لاہور کی بڑی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ایک تھا۔ دور دور سے قافلے شریک ہوتے۔ شہر رنگی برنگی روشنیوں اور سریلی آوازوں سے گونج اٹھتا۔

1965 کے جشن بہاراں اور اپنی پہلی پرفارمینس کو یاد کرتے ہوئے نصرت فتح علی خان ایک جگہ کہتے ہیں۔

’اس موقع پر موسیقی سے وابستہ بہت بڑے بڑے فن کار جیسے ملکہِ موسیقی روشن آرا بیگم، استاد امید علی خاں، استاد چھوٹے غلام علی خاں اور استاد برکت علی خاں وہاں موجود تھے۔ میرے تایا مرحوم مبارک علی خاں صاحب نے تعارف کروایا کہ یہ میرے مرحوم بھائی فتح علی کا بیٹا ہے۔ ان دنوں بالکل میرا آغاز تھا۔ مجھے جو ٹوٹا پھوٹا آتا تھا وہ سنایا تو وہ سب میرے والد کو یاد کرکے رونے لگے اور میری بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ یہ بہت باصلاحیت بچہ ہے، بہت ترقی کرے گا۔ ‘

ریڈیو پاکستان لاہور کے سابق کنٹرولر اور سٹیشن ڈائریکٹر خالد اصغر خود گانے بجانے سے بھی وابستہ رہے۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کے پرانے دفتر کے احاطے میں مارچ 1965 میں منعقد ہونے والے جشنِ بہاراں کے پہلے روز حسبِ دستور قوّالیاں ہوئیں اور سب سے پہلی پرفارمنس ہماری قوّال پارٹی کی تھی۔ میں پارٹی کو لیڈ کرتا تھا۔ ہم یونین ہائی سکول گوال منڈی کی طرف سے آئے تھے۔ بعد میں یہ اسلامیہ ہائی اسکول بن گیا۔

ہمارے استاد اپنے وقت کے معروف قوال آغا بشیر احمد تھے۔ ہم نے کلامِ اقبال گایا۔

دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

اسی میلے میں نصرت کی پہلی پرفارمینس تھی جسے یاد کرتے ہوئے خالد اصغر ہمیں بتاتے ہیں، نصرت نے بھی قوالی کا آغاز علامہ اقبال کے شعر سے کیا:

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

قوالی کے دوران نصرت نے ایسے پلٹے مارے کہ حاضرین ششدر رہ گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وہی خالد اصغر ہیں جنہوں نے ’کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا‘ سمیت کئی آئٹم نصرت کی آواز میں پروڈیوس کیے۔

نصرت صاحب کی بیرون ملک پہلی پرفارمنس بمبئی میں تھی، جہاں 1979 میں انھیں عظیم فلم ساز راج کپور نے اپنے بیٹے رِشی کپور کی شادی پر بلایا تھا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1958 میں راج کپور کی شادی پر فتح علی خاں اور مبارک علی خاں نے پرفارم کیا تھا۔

ستّر کی دہائی میں دنیا بھر میں نصرت کی قوّالی گونجنے لگی۔ 80 کی دہائی کے اوائل سے لے کر اپنی وفات تک انھوں نے برِصغیر پاک و ہند میں موسیقی کے انداز و اطوار کو بدل کر رکھ دیا۔ یہاں کی موسیقی میں ایک طویل عرصہ میلوڈی کا مقام بلند تر تھا۔ نصرت وہ فن کار تھا جس کی وجہ سے بِیٹ کو ترجیح دی جانے لگی۔ بِیٹ کی پسندیدگی کا یہ رُجحان آج تک قائم و دائم ہے۔

ایک دفعہ راقم کا موسیقی کے اسرار و رموز پر استاد حسین بخش گُلو سے مکالمہ ہو رہا تھا۔ قوّالی کے فن اور قوّالوں کے عروج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا، ’ہمارے بڑے جب کسی بچے کو ڈانٹتے تھے تو غصے میں کہتے تھے میں تمھیں قوّالوں کے ہاں بھیج دوں گا۔ ‘

قوالی کو پست ترین گائیکی سمجھا جاتا تھا۔

پھر ایسا وقت بھی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سُنا کہ کلاسیکی گھرانوں کے بچے بھی قوّالی انگ میں گانے لگے۔ مثلاً شام چوراسی گھرانے کے استاد نزاکت علی خاں کے ہونہار فرزند رفاقت علی خاں اکثر و پیشتر قوّالی انگ میں گاتے ہیں۔ اسی طرح استاد سلامت علی خاں کے پوتے اور شرافت علی خاں کے بیٹے شجاعت علی خاں بھی مختلف تقریبات میں قوّالی کے رنگ ڈھنگ میں گا لیتے ہیں گو کہ وہ ورسٹائل گویے ہیں۔

قوّالی، فوک اور فلم میوزک، ہر جگہ نصرت فتح علی خاں کی چھاپ نظر آتی ہے۔

پنجابی کے لیجنڈری شاعر شِوّ کمار بٹالوی کا کلام پاکستان اور خاص طور پر انٖیا میں بہت سے گلو کاروں نے گایا ہے مگر نصرت نے ’مائے نی مائے میرے گیتاں دےنیناں وچ برہوں دی رڑک پوے‘ کو اپنی آواز دے کر لازوال بنا دیا۔ صرف نصرت کے گانے کی وجہ سے یہ امر کلام بہت سے لوگوں کے لیے شِو کمار بٹالوی کا تعارف ثابت ہوا۔

نصرت کی جس آواز کو ابتدا میں گائیکی کے لیے ناموزوں سمجھا گیا، اس کا انھوں نے ریاضت اور کاریگری سے ایسا استعمال کیا کہ وہی ان کی تخصیص بن گئی۔

نصرت صاحب کی زندگی کی آخری پرفارمنس بھی ریڈیو لاہور میں ریکارڈ ہوئی۔ امجد اسلام امجد کی لکھی ہوئی غزل کی موسیقی خالد اصغر نے ترتیب دی۔ بول ہیں،

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے

تمھیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے

خالد صاحب بتاتے ہیں کہ میں نصرت خاں صاحب کا اور وہ میرے فین تھے۔ اگست 1997 ء میں انھوں نے اس غزل کی ریکارڈنگ کے لیے اپنی لندن کی فلائٹ دو تین دن لیٹ کروائی۔

لندن جاتے ہوئے راستے میں نصرت صاحب کی طبعیت خراب ہوئی اور انھیں ایئر پورٹ سے سیدھا ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ یوں موسیقی کی دنیا کا چلن بدلنے والے فن کار کی فنی زندگی کا آغاز اور اختتام اتفاق سے ایک ہی مقام ریڈیو لاہور سے ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ