نصرت فتح علی خان کا مزار مکمل: ’تیرا دتا، تیرے توں ای واریا‘

مزار کی تعمیر مکمل ہونے پر راحت فتح علی خان اسے دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر فیصل آباد آئے، ان کا کہنا تھا کہ یہ مزار انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بنایا ہے اور کسی نے بھی اس میں مالی طور پر انہیں کوئی تعاون فراہم نہیں کیا۔

نصرت فتح علی خان کی وفات کے 24 سال بعد ان کے مزار کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ یہ مزار نصرت فتح علی خان کے بھتیجے اور عالمی شہرت یافتہ گلوکار و موسیقار راحت علی خان نے تعمیر کروایا ہے۔

جھنگ روڈ قبرستان میں نصرت فتح علی خان کے مرقد پر بنائے گئے اس مزار میں دیواروں پر سفید اور بارڈر پر گہرے نیلے رنگ کی ٹائلز لگائی گئی ہیں جب کہ فرش اور قبروں پر ہلکے بھورے رنگ کا سنگِ مرمر لگایا گیا ہے۔

مرکزی دروازے اور کھڑکیوں پر مغل طرز تعمیر کے انداز میں لوہے کی سنہری جالیاں لگائی گئی ہیں۔ مزار کی چھت پر پچی کاری اور شیشے (موزیک) کا کام کرنے کے علاوہ بلوریں فانوس بھی لگایا گیا ہے۔

مزار کے احاطے میں نصرت فتح علی خان کی اہلیہ، والد، والدہ، چچا اور خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ راحت فتح علی خان کے والد فرخ فتح علی خان کی آخری آرام گاہ بھی موجود ہے۔

واضح رہے کہ نصرت فتح علی خان کی وفات 16 اگست 1997 میں ہوئی تھی اور انہیں ان کی وصیت کے مطابق ان کے والدین کی آخری آرام گاہ کے پاس ہی لحد میں اتارا گیا تھا۔

مزار کی تعمیر مکمل ہونے پر راحت فتح علی خان اسے دیکھنے کے لیے خصوصی طور پر فیصل آباد آئے۔ انہوں نے نصرت فتح علی خان اور خاندان کے دیگر افراد کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرنے کے بعد پھول نچھاور کئے اور نصرت فتح علی خان کا گایا ہوا کلام سنا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ مزار انہوں نے اپنی مدد آپ کر کے بنایا ہے اور کسی نے بھی اس میں مالی طور پر انہیں کوئی تعاون فراہم نہیں کیا ہے۔

’یہ جو سہرا ہے قدرت نے میرے سر پہ رکھنا تھا۔ اللہ کی مہربانی سے ہم نے اسے تکمیل تک پہنچا دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ نصرف فتح علی خان کے شاگرد طاہر رفیق گوہر کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے دن رات محنت کر کے اس مزار کی تعمیر کو ممکن بنایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے والے نصرت فتح علی خان کی یادگار یا مزار بنوانے میں حکومتی کردار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے دور حکومت میں مزار کی تعمیر کا کچھ کام ہوا تھا لیکن اس کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے ایک دھیلہ بھی اس مزار کی تعمیر پر خرچ نہیں کیا۔

’الحمداللہ ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے، اتنے بڑے فنکار کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے یہ روحانی شخصیت تھے اور ہیں۔ ان کے مزار سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی کوئی اپنے صدق دل سے ان سے مانگے تو سہی۔ یہ وہ ہیں جو دیتے ہیں اور میں جو کہہ رہا ہوں کہ ہم نے اس پر اخراجات کیے ہیں میں پنجابی کا ایک ہی مصرعہ کہوں گا کہ تیرا دتا، تیرے توں ای واریا۔‘

راحت فتح علی خان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی کی حکومتوں سے بھی یہ درخواست کرتے آئے ہیں اور موجودہ حکومت سے بھی یہی درخواست کریں گے کہ نصرت فتح علی خان کے نام پر میوزک اکیڈمی بنائی جانی چاہیے جہاں بچوں کو موسیقی اور فن قوالی کی تربیت دی جا سکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے حکومت سے نصرت فتح علی خان کی جائے پیدائش کو میوزیم کا درجہ دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

’میں نے پچھلے سال بھی یہی درخواست کی تھی کہ خان صاحب کا جو آبائی گھر ہے جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی اسے ایک میوزیم کا درجہ دیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس میوزیم میں نصرت فتح علی خان اور ان کے خاندان کے دیگر بزرگوں کے نواردرات کو نمائش کے لیے رکھا جا سکتا ہے تاکہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے ان کے قدر دان اس جگہ جا کر ان کی یادیں تازہ کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا