جب نغمہ نگار آنند بخشی نصرت فتح علی خان سے مل کر رو پڑے

آنند بخشی خود کو سپر سٹار نغمہ نگار مانتے تھے، اور ان کے خیال میں خود چل کر نصرت فتح علی خان کے پاس جانا ان کی توہین ہے۔

نصرت فتح علی خاں بین الاقوامی شہرت یافتہ گلوکار اور موسیقار تھے (Fair Use)

شہرہ آفاق نغمہ نگار آنند بخشی کو جب تیسری بار استاد نصرت فتح علی خان کا یہ پیغام ملا کہ وہ ان سے ہوٹل میں آ کر ملیں تو اس بار ان کا ماتھا ٹھنکا۔

ٹھنڈے مزاج کے بخشی صاحب کی تیوری پر بل پڑنے لگے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے پیغام رساں کو انہوں نے کچھ تو نہیں کہا لیکن اپنے کمرے میں آکر وہ خفگی کے عالم میں بڑ بڑانے لگے۔

انہیں توقع نہیں تھی کہ دنیا بھر میں شہرت کے ڈنکے بجانے والے استاد نصرت فتح علی خان اس قدر مغرور ہوں گے کہ آنند بخشی جیسے نغمہ نگار کو اپنے پاس بلا کر گیت لکھوانا چاہیں گے۔ وہ مانتے تھے کہ استاد نصرت فتح علی خان شہنشا قوالی ہیں لیکن خود اُن کی بھی بالی وڈ میں ایک منفرد شناخت، ساکھ اور مقام تھا۔

یہ وہی آنند بخشی تھے جو اُس وقت تک تین فلم فئیر ایوارڈز حاصل کرچکے تھے۔ جن کے لکھے ہوئے گیت دلوں میں اتر جاتے۔ فلم بین تو برسوں سے ان کے ہر گانے کو گنگنا رہے تھے اورکوئی نہ کوئی گیت مختلف درجہ بندی کے ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں میں صف اول پر رہتا۔ پروڈیوسر خاص طور پر بھاری معاوضے کے عوض ان کی خدمات حاصل کرتے اور بسا اوقات تو وہ بیک وقت آدھے درجن سے زیادہ فلموں کے لیے نغمہ نگاری میں مصروف ہوتے۔

لیکن استاد نصرت فتح علی خان کے سامنے اب انہیں اپنا قد پست قامت لگنے لگا تھا۔ پیشہ ورانہ وقار اور رتبے کا مقابلہ اب ان کے ذہن میں جیسے چپک کر رہ گیا۔ آج تک کسی نے ان پر ایسی پابندیاں نہیں لگائی تھیں اور یہی بات سوچ کر اب آنند بخشی کا پارہ ہائی ہورہا تھا۔

قصہ ہے 1996 کے اختتامی مہینوں کا جب استاد نصرت فتح علی خان بالی وڈ میں اپنی تیسری فلم ’کچے دھاگے‘ کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ دنیا بھر میں نصرت فتح علی خان کے چاہنے والوں کی تعداد پھیلی ہوئی تھی۔ بالی وڈ میں جہاں ان کے گانوں اور دھنوں کا چربہ بن رہا تھا وہیں کئی موسیقار نصرت فتح علی خان کی آواز کو استعمال کرنے کو اپنے لیے اعزاز تصور کرتے۔

اسی طرح انہوں نے ’بینڈٹ کوین‘ کے بعد ’اور پیار ہو گیا‘ جیسی فلموں کی کمپوزیشن دے کر خود کو بھارتی موسیقاروں سے دو قدم آ کے لاکھڑا کیا تھا۔

انہی دنوں انہوں نے نغمہ نگار جاوید اختر کے ساتھ میوزیکل البم ’سنگم‘ پیش کیا تھا، جس کا ایک گیت ’آفرین آفرین‘ تو بھارتیوں کو ان کا اور دیوانہ بنا گیا تھا۔ اب ایسے میں وہ پہلی بار نغمہ نگار آنند بخشی کے ساتھ ’کچے دھاگے‘ میں یکجا ہوئے تھے، جس کے گانوں کی کمپوزیشن کے لیے وہ خاص طور پر پاکستان سے ممبئی آئے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وہی فلم تھی جس میں پہلی مرتبہ اجے دیوگن اور سیف علی خان بھی کام کررہے تھے۔ اس کی کہانی کنگ فو مارشل آرٹ ہیرو جیکی چن کی فلم ’آرمر آف گاڈ‘ سے متاثر تھی۔

نصرت فتح علی خان ممبئی کے عالی شان ہوٹل میں رہائش پذیر تھے اور گیتوں کی تیاری کے دوران ان کی آنند بخشی سے سٹنگ بھی نہیں ہوئی تھی۔ نغمہ نگار کوئی گیت لکھ کر انہیں بھیجتے تو نصرت فتح علی خان کو لگتا کہ اس کے بول دھن سے تال میل نہیں کھا رہے اور ایسا کئی بار ہوا۔

تبھی انہوں نے آنند بخشی کو پیغام بجھوایا کہ وہ اُن سے ہوٹل میں آ کر ملیں۔ اب یہی سندیسہ ملا تو آنند بخشی چراغ پا تھے۔ انہیں لگا کہ نصرت فتح علی خان جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں۔ یہاں تک وہ اسے ایک پاکستانی کے ہاتھوں اپنی تذلیل گردان بیٹھے تھے۔

 گو کہ آنند بخشی کا تعلق بھی راولپنڈی سے تھا اور یہی ان کا آبائی شہر تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت آ کر آباد ہو گیا تھا۔ انہیں محسوس ہوا کہ نصرت فتح علی خان اپنی شہرت، مقبولیت اور رتبے کی اُن پر دھاک بٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ آنند بخشی کے مقام کو خاطر میں نہیں لا رہے اور یہی وہ خیالات تھے جن کی بنا پر آنند بخشی نے بھی فیصلہ کر لیا کہ کچھ بھی ہوجائے نصرت فتح علی خان کے پاس نہیں جائیں گے، اگر وہ بڑے سپر سٹار ہیں تو آنند بخشی بھی کسی سے کم نہیں۔

اب ہوتا یہ کہ آنند بخشی کوئی گیت لکھتے اورجب یہ نصرت فتح علی خان کے پاس جاتا تو وہ اس میں تبدیلی کرنے کا کہتے اور بسا اوقات انہیں پسند بھی نہیں آتا۔ اسی طرح جب دھن بن کر آنند بخشی کے پاس آتی تو وہ کوئی نہ کوئی وجہ بنا کر اسے رد کر دیتے۔ یوں یہ سلسلہ دو ہفتے تک جاری رہا اور اس دوران ایک بھی دھن نہ بن سکی۔ آنند بخشی نے بھی ضد پکڑ لی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے نصرت فتح علی خان کے سامنے جھکیں گے نہیں۔

اُس دن آنند بخشی کچھ لکھنے کی کوشش میں تھے، جبھی ان کے پہلی منزل کے فلیٹ میں شور شرابے کی گونج مچی ہوئی تھی۔ کاغذ قلم ایک طرف رکھ کر وہ فلیٹ سے باہر نکلے تو جو منظر ان کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ ان کے لیے ناقابل فراموش ہی کہا جا سکتا ہے۔ استاد نصرت فتح علی خان کو چھ سات افراد اٹھا کر لا رہے تھے۔

جیسے ہی ان کی نگاہ آنند بخشی پر پڑی تو وہ چہکے، ’بخشی صاحب میں نے سوچا کہ آج خود آپ کے پاس آجاؤں تاکہ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کو کچھ آگے بڑھائیں ۔۔۔ دراصل بیماری کی وجہ سے دو قدم بھی چلا نہیں جاتا۔ اسی لیے یہ بے چارے مجھے اٹھا کر اِدھر سے اُدھر لے جاتے ہیں۔‘

آنند بخشی پر یہ انکشاف کسی بم کی طرح پھٹا۔ اب انہیں سمجھ آنے لگا کہ کیوں استاد نصرت فتح علی خان اُنہیں اپنے پاس آنے کے بلاوے بھیجتے رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں ندامت اور شرمندگی سے جھکی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو انہیں محسوس ہوا کہ جیسے الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔

 دراصل یہ وہ وقت تھا جب نصرت فتح علی خان مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر فربہی کا شکار ہو گئے تھے اور کہیں بھی جانے کے لیے انہیں کم از کم پانچ سے چھ افراد کی ضرورت ہوتی، جو باقاعدہ ڈنڈا ڈولی کرکے استاد نصرت فتح علی خان کو اُن کی منزل تک پہنچاتے۔

آنند بخشی نے آگے بڑھ کر فلیٹ کا دروازہ کھولا اور سر جھکا کر استاد نصرت فتح علی خان کے پیچھے تھکے ہوئے انداز میں چلتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آ پہنچے۔ ادھر نصرت فتح علی خان صوفے پر براجمان ہونے کے بعد سانسیں بحال کر رہے تھے۔

آنند بخشی جس غلط فہمی کا شکار تھے وہ اب دور ہو چکی تھی۔

وہ انتہائی شرمساری کی حالت میں تھے، آنکھیں نم تھیں۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی جھوٹی انا، ضد اور غلط فہمی نے نصرت فتح علی خان کو کس قدر تکلیف سے دوچار کیا جو اس وقت گیتوں کے حوالے سے بولے جارہے تھے اور بخشی صاحب خالی خالی نگاہوں سے انہیں ٹکٹکی باندھ کر بس دیکھ رہے تھے۔

جب ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے تو کم و بیش روتے ہوئے نصرت فتح علی خان سے گلے لگ کر اپنی کوتاہی کی معذرت کرنے لگے۔ اس پر نصرت فتح علی خان نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکرا کر کہا، ’چلیں اب بیٹھ جاتے ہیں گانے پر۔‘

نصرت فتح علی خان کی جب واپسی ہونے لگی تو آنند بخشی نے ایک بار پھر شرمندہ لہجے میں کہا کہ اب وہ جہاں اور جب بولیں گے حاضر ہو جائیں گے۔ جس کے جواب میں نصرت فتح علی خان نے ان کا شکریہ ادا کیا بلکہ اب گلے لگانے کی باری اُن کی تھی۔

اس واقعے کے بعد آنند بخشی خود نصرت فتح علی خان کو فون کر کے وہیں آ جاتے جاتے جہاں وہ ہوتے۔ دونوں میں ایسی دوستی ہوئی کہ خوب محفلیں جمنے لگیں۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ نصرت فتح علی خان کی فرمائش پر آنند بخشی نے نجی محفل میں گلوکاری ایسی کی سب دنگ رہ گئے کہ وہ نغمہ نگار کے ساتھ چھپے رستم قسم کے بہترین گلوکار بھی ہیں۔

دونوں کے اس یارانے کا یہ اثر ہوا کہ ’کچے دھاگے‘ کے لیے مدھر اور مسحور گیت تخلیق ہوئے، جنہیں لتا منگیشکر، کمار سانو، الگا یاگنک، سکھوندر سنگھ، ہنس راج ہنس اور خود نصرت فتح علی خان نے دل کی گہرائیوں سے ڈوب کر گایا۔ فلم کی کامیابی میں انہی گیتوں نے اہم کردار ادا کیا۔

لیکن بدقسمتی سے جب 1999 میں ’کچے دھاگے‘ سنیما گھروں کی زینت بنی تو اُس سے لگ بھگ پونے دو سال پہلے نصرت فتح علی خان اس دنیا سے چل بسے تھے۔

ادھر آنند بخشی کی زندگی کا سفر 30 مارچ 2002 کو تمام ہوا۔ لیکن جب تک وہ حیات رہے نصرت فتح علی خان کو اپنا بہترین دوست اور رفیق قرار دیتے اور کبھی انہیں وہ واقعہ یاد آتا تو اپنی انا اور خود غرضی پر شرمندگی ضرور محسوس کرتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی