جب ساحر لدھیانوی کی انا بالی وڈ سے ٹکرا گئی

ساحر لدھیانوی کی انا نے ایک طرف تو انہیں نقصان پہنچایا، لیکن دوسری جانب اس کے سبب کچھ ایسے موسیقار ابھر کر سامنے آئے جو ساحر کے بغیر شاید گمنام ہی رہتے (ساحر کی برسی پر خصوصی تحریر)۔

(ٹوئٹر)

جون 1948 کی ایک تپتی دوپہر چار دوستوں کی ٹولی لاہور کے ایبٹ روڈ سے والٹن ایئرپورٹ کی طرف رواں تھی۔ انہی میں ایک 27 سالہ لمبا تڑنگا گندمی رنگت والا نوجوان بھی شامل تھا۔

انگلیوں میں سگریٹ، کھدر کا لباس، اس پہ ایک پرانا اوورکوٹ۔ اس نے منڈے ہوئے سر پہ فلیٹ ہیٹ اس انداز میں کھینچ رکھی تھی کہ کانوں کی لویں بھی نظر نہ آتیں۔ یہ کسی جاسوسی ناول کا کردار نہیں بلکہ تلخیاں کا مقبول شاعر ساحر لدھیانوی تھا۔ اس نے یہ روپ خفیہ پولیس سے پچنے کے لیے دھارا تھا۔ بائیں بازو کی سیاست سے وابستگی اور باغیانہ خیالات کے سبب ساحر کو ہر لمحہ یہ خدشہ تھا کہ دھر نہ لیا جاؤں۔ آخر ساحر نے خوف کی یہ سرحد عبور کرنے کا فیصلہ کیا۔

بمبئی میں ساحر نے موسیقار جی ڈی کپور کی فلم ’آزادی کی راہ‘ کے لیے چار گیت لکھ کر بسم اللہ کی۔ نہ فلم چلی نہ اس کے گیت اور ساحر ایک بار پھر کام کی تلاش میں بمبئی کی سڑکیں ماپنے لگا۔

ساحر کو زعم تھا کہ ابھی تین سال پہلے شائع ہونے والی اس کی کتاب ’تلخیاں‘ نے تہلکہ مچا دیا تھا اور یہ کتاب نوجوانوں کا منشور بن گئی تھی۔ اس کے باوجود اسے اگلی فلم کے لیے تین سال مزید انتظار کرنا پڑا اور 1951 میں ’نوجوان‘ ریلیز ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بار موسیقار سچن دیو برمن (برمن دا) تھے جن کا ترتیب دیا گیت ’ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں‘ گلی گلی میں بجنے لگی۔ اس گانے کی سادہ مگر پرکار دھن آنے والے موسیقاروں کو اتنی بھائی کہ اب تک یہ کوئی دس بار نقل ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

نوجوان کے دوسرے گیت بھی بہت چلے۔ البتہ اس ساحر اور برمن دا کی اگلی فلم ’بازی‘ میں ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ساحر نے اپنی طرف سے غزل لکھی تھی اور چاہتے تھے کہ اس کی طرز غزل ہی کے انداز میں بنے مگر برمن دا نے فلم کی سچویشن کی مناسبت سے اسے شوخ انداز کا کیبرے بنا ڈالا۔ ساحر نے فلم ساز سے شکایت بھی کی مگر برمن دا ڈٹ گئے۔

بعد میں برمن دا کہتے ہیں جب میں کلکتہ میں دریائے ہگلی کے کنارے مچھلیاں پکڑتے لڑکوں کو یہ گانا گاتے سنا تو میرے اعتماد کو تائید مل گئی کہ میرا فیصلہ درست تھا۔

برمن دا میں یہی خوبی تھی کہ وہ اگر دل میں ٹھان لیتے تو پھر کسی کا دباؤ قبول نہیں کرتے تھے۔ اگلے ہی برس فلم ’جال‘ کی موسیقی ترتیب دیتے وقت انہوں نے ساحر کے لکھے گئے دلکش رومانوی گیت ’یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں، سن جا دل کی داستاں‘ کے لیے بالی وڈ کی نئی نسبتاً آواز ہیمنت کمار کی آواز کا انتخاب کیا۔

ساحر کو ایک بار پھر اس گیت کی دھن پسند نہیں آئی، اور فلم کے ہدایت کار گرو دت اس گیت کے لیے محمد رفیع کی آواز استعمال کرنا چاہتے تھے۔ ایک بار پھر برمن دا نے سنی ان سنی کر دی، اور یہ گیت آج بھی کروڑوں کانوں میں رس گھول رہا ہے۔

ان اختلافات کے باوجود ساحر اور برمن دا نے اس کے بعد بہت عمدہ فلمیں ایک ساتھ کیں۔ ’ڈوب گئے آکاش کے تارے،‘ ’جیون کے سفر میں راہی،‘ ’جائیں تو جائیں کہاں جیسے لافانی گیت دینے کے بعد گرودت کی فلم ’پیاسا‘ کا مرحلہ درپیش تھا۔ 

پیاسا کی کہانی ساحر کی زندگی پر مبنی تھی۔ ایک شاعر کی زندگی سے براہ راست ربط کی وجہ سے شاعری کا موسیقی پہ حاوی ہونا تھیم کے عین مطابق تھا۔ موسیقی کم اور الفاظ زیادہ تھے۔

یہیں دو بڑی انائیں ٹکرا گئیں۔ ساحر نے فلم کی کامیابی کا سہرا اپنی شاعری کے سر باندھ دیا۔ برمن دا کا خیال اس کے برعکس تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں کا ساتھ ہمیشہ کے لیے چھوٹ گیا۔

ساحر نے ایک اور مشہور و مقبول موسیقار او پی نیر کا دامن تھام لیا۔ ان دونوں کی فلم ’نیا دور‘ ریلیز ہوتے ہی بالی وڈ کو اپنے پنجابی انگ میں بہا لے گئی۔ ’اڑیں جب جب زلفیں تیری،‘ ’مانگ کے ساتھ تمہارا،‘ ’ریشمی شلوار کڑتا جالی کا‘ اور ’ساتھی ہاتھ بڑھانا‘ جیسے گیت دلوں میں دھڑکنے لگے۔

پھر یہ ہوا کہ ایک دن ساحر نے برمن دا کا مذاق اڑایا تو نیر نے فورا ٹوکتے ہوئے ساحر کو چپ کرا دیا۔ اس طرح محض پانچ فلموں کے بعد دونوں کا تال میل بگڑ گیا۔

برمن اور نیر سے لڑائی کے بعد ساحر نے من ہی من میں ٹھان لی کہ اب ایسے بڑے ناموں  سے بچتے ہوئے کام کروں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ فلم میری شاعری کی وجہ سے چلتی ہے نہ کہ ان کی موسیقی کے سبب۔ 

ساحر نے اپنا یہ نظریہ ثابت کرنے کے لیے بی کیٹگری موسیقاروں کے ساتھ کام شروع کیا۔ اس دوران ان کی نگاہِ انتخاب این دتا پر پڑی جس کے ساتھ ساحر نے دو چار نہیں بلکہ 18 فلموں کے گیت لکھے۔ ان میں سے کچھ گیت آج بھی سنے جاتے ہیں، جیسے ’میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی (رفیع)، ’تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا (رفیع)، ’میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں (آشا)، لیکن این دتا دوسری صف سے پہلی صف میں نہیں آ سکے۔

البتہ ساحر نے ایک اور موسیقار کو پہلی صف میں لا کھڑا کرنے میں کلیدی کردار ضرور ادا کیا۔ 1948 میں فلمی کیرئیر کا آغاز کرنے والا روشن 1960 تک 32 فلمیں کرنے کے باوجود کامیابی کا متلاشی تھا۔ 1960 میں ساحر کے ساتھ روشن کی دو فلمیں ریلیز ہوئیں، ’بہار‘ اور ’برسات کی رات۔‘

برسات کی رات ہی وہ فلم تھی جس میں روشن نے اپنی آواز، اپنا رنگ، اپنا آہنگ پایا۔ ’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات (رفیع) بناکا گیت مالا میں اس سال کا مقبول ترین گیت ثابت ہوا تو ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘ کو آج بھی بالی وڈ کی تاریخ کی سب سے عمدہ قوالی سمجھا جاتا ہے۔

ممکن ہے آپ بھی (برمن دا کی طرح) یہ سوچ رہے ہوں کہ اس میں گیت کار نے کیا چمتکار دکھایا؟

روشن باصلاحیت ہونے کے باوجود دوسرے درجہ کا موسیقار تھا۔ فلم میں دو نغمہ نگار تو معمول کی بات ہے لیکن اگر کسی موسیقار کو دس گیت لکھوانے ہوں اور اس کا واسطہ پانچ یا چھے شاعروں سے پڑے تو بھان متی کا کنبہ کتنا ہم آہنگ ہو گا؟ یقین نہ آئے تو روشن کی فلم ’چاندنی چوک‘ (1954) یا ’شیشام‘ (1952) دیکھ لیجیے۔ ایسی مثالیں اکا دکا نہیں بلکہ 22 سال میں روشن نے محض آٹھ بار ایک گیت نگار کے ساتھ پوری فلم کی اور ان میں بھی چار بار ایسے شاعر کے ساتھ جو سرے سے فلم کا نغمہ نگار تھا ہی نہیں۔

برسات کی رات سے روشن کا ستارہ سورج بن کر چمکنے لگا، بلکہ 1963 میں روشن ساحر کی جوڑی فلم تاج محل میں بہترین موسیقار اور بہترین نغمہ نگار کے فلم فیئر بھی لے اڑی۔ دونوں کا یہ پہلا فلم فئیر تھا۔ اس فلم کا گیت ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘ (رفیع، لتا) آج بھی مقبول ترین گیتوں میں سے ایک ہے۔

اگلے سال ساحر روشن نے مل کر ’چترلیکھا‘ جیسی عمدہ فلم دی۔ ’من رے تو کاہے نہ دھیر دھرے‘ رفیع کی آواز میں امر ہو گیا۔ ’بہو بیگم‘ اس جوڑی کی آخری فلم تھی جس کا ایک ایک گیت اپنی عمدہ شاعری اور مدھر موسیقی کے سبب آج بھی مسحور کر دیتا ہے۔ افسوس روشن کی اچانک موت سے کتنے ہی ان سنے نغمے ان سنے رہ گئے۔ 

ساحر کی انا اور خود پسندی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 50 اور 60 کی دہائی میں مہنگے ترین موسیقار نوشاد اور شنکر جے کشن کے ساتھ اس نے اپنے پورے کیرئیر میں ایک فلم بھی نہ کی۔ ایسا نہیں کہ موقع نہ ملا ہو مگر ساحر کی فطرت میں دور دور تک کسی ایسے شخص کی گنجائش نہ تھی جو اس کی شخصیت یا کام پہ حاوی نظر آئے۔

1964 میں دلیپ کمار کے اصرار پہ ’لیڈر‘ فلم کے لیے ساحر کو بطور نغمہ نگار لیا گیا۔ سچویشن کے مطابق تاج محل پہ دو پریمیوں کی ملاقات کا سماں قلم بند کرنا ہوتا ہے۔ نوشاد مغل اعظم کے موسیقار، لکھنوی رکھ رکھاؤ اور تہذیب و کلچر کو عقیدت کی نظر سے دیکھنے والے۔

دوسری طرف ساحر، بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ، تنقیدی شعور اور مارکسی نقطہ نظر سے زندگی کو دیکھنے والا۔ جب ساحر نے یہ سطریں سنائیں ’اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق،‘ تو نوشاد نے قہر آلود نظروں سے دیکھا کہ یہ کیا لکھ ڈالا؟

ساحر نے کہا، ’میں تو ایسا ہی لکھو گا ورنہ بلا لیجیے شکیل کو۔‘ بعد میں شکیل نے لکھنے کو تو ساحر کی اسی نظم کا جواب لکھا، ’اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل، ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے،‘ لیکن کھرے اور کھوٹے کا فرق صاف ظاہر ہے۔

اسی طرح شنکر جےکشن کے ساتھ کام کرنے کا موقع فلم پھر ’صبح ہو گی‘ میں ملا۔ فلم کی کہانی دوستویفسکی کے عظیم ناول ’جرم و سزا‘ سے ماخوذ تھی۔ ساحر نے کہا اس فلم کی موسیقی وہ شخص دے گا جس نے ناول پڑھ رکھا ہو۔ اس کسوٹی پر ایک اور بھولا بسرا موسیقار پورا اترا، خیام، اور یوں اس جوڑی کا آغاز ہوا۔

خیام آج شائقین موسیقی کے لیے ایک دیوتا ہے۔ یہی خیام چھ سال گھر بیٹھا رہا اور ایک بھی فلم نہ ملی۔ 1967 میں ’میرا بھائی میرا دشمن‘ کی ناکامی کے بعد خیام کو 1974 تک انتظار کرنا پڑا۔ اگلے تین سال میں اس نے چار فلمیں کیں جن میں سے ایک بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ 27 سال فلم نگری میں گزارنے کے بعد بھی خیام گم نامی کے سمندر میں غرق تھا۔ 

یش چوپڑا نے ساحر کی نظم ’کبھی کبھی‘ پڑھ کے جب فلم بنانے کا ارادہ کیا تو ساحر نے کہا موسیقار وہ شخص ہو گا جو ادب کے لطیف جمالیاتی ذوق سے آگاہ ہو۔ چوپڑا برادرز کے کیمپ میں ساحر کا کہا حرف آخر تھا۔ فلم نگری میں ’بدقسمت‘ کی چھاپ لیے خیام کبھی کبھی کے لیے موسیقی دینے آیا اور پھر کبھی پلٹ کے نہ دیکھا۔

فلم کی دنیا میں شاعر کی نسبت ہمیشہ موسیقار اہم ہوتا ہے۔ ساحر ہمیشہ اس کلیے کو الٹنے پہ بضد رہا۔  نقصان یہ ہوا کہ ساحر کے بہت سے عمدہ گیت بری موسیقی تلے دب کے رہ گئے۔ ساحر کی مکمل پشت پناہی کے باوجود این دتا بطور موسیقار کسی طرح اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ ساحر اور این دتہ نے ایک ساتھ 18 فلموں میں کام کیا۔ تعداد کے اعتبار سے ایس ڈی برمن اور ساحر کی فلمیں بھی اتنی ہی ہیں لیکن معیار کا فرق زمین آسمان کا ہے۔ برمن دا تو خیر برمن دا ہیں این دتا کے سارے کام پہ جےدیو اور ساحر کی ’مجھے جینے دو‘ اور ’ہم دونوں‘ بھاری ہیں۔

 

ساحر کی ضد، انا اور نازک مزاجی کا فائدہ یہ ہوا کہ روشن، خیام اور جےدیو جیسے موسیقار ابھر کے سامنے آئے۔ اس جرات اور باغیانہ روش کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ بھلا ساحر کے سوا یہ جرات کون کر سکتا تھا؟ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم