’ون ڈرم سرکل‘: جہاں ڈھول کی تھاپ دلوں کو جوڑتی ہے

یہ صرف موسیقی کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی توانائی کا استعمال ہے جو ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔

نوجوان انسٹرکٹر ندال بن طاہر کی قیادت میں مرد و خواتین کا گروپ موسیقی کی ردھم کے ذریعے ذہنی دباؤ کم کرنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کا منفرد ذریعہ بن گیا۔

اسلام آباد میں ’ون ڈرم سرکل‘ نامی یہ منفرد گروپ تیزی سے مقبول ہورہا ہے جہاں مرد و خواتین ایک دائرے میں بیٹھ کر ڈھول بجاتے ہیں اور اجتماعی طور پر اپنی توانائی اور جذبات کو موسیقی کے ردھم میں ڈھال دیتے ہیں۔

یہ محض ایک موسیقی کا پروگرام نہیں بلکہ ذہنی دباؤ سے نجات اور روحانی سکون حاصل کرنے کا ایک عملی طریقہ ہے۔اس ڈرم سرکل کے روحِ رواں نڈال نامی نوجوان ہیں، جو گزشتہ چھ سالوں سے پاکستان کے مختلف شہروں میں ایسے ایونٹس منعقد کر رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے  ندال بن طاہر نے بتایا کہ ہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے مرد و خواتین کو مدعو کرتے ہیں اور پھر کسی پرفضا ماحول میں اس سرگرمی کا انعقاد کرتے ہیں۔؎

اس سرکل میں شامل افراد ایک دائرے میں بیٹھ کر اپنے گھٹنوں کے درمیان ڈرم رکھتے ہیں اور انسٹرکٹر کے اشارے پر ایک ہم آہنگ ردھم پیدا کرتے ہیں۔

بیچ میں ندال بن طاہر میں خود مختلف انداز میں ڈرم بجاتے ہیں تاکہ سب شرکا ان کی تال کے ساتھ ہم قدم رہیں۔

وہ کہتے ہیں یہ صرف موسیقی کا مظاہرہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی توانائی کا  استعمال ہے جو ذہنی سکون اور خوشی کا باعث بنتا ہے۔

بقول ندال بن طاہر: ’ہماری ٹیم مختلف ریستورانوں، کیفے اور کلچرل سپیسز میں جا کر یہ ڈرم سرکل منعقد کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے سرسبز مقامات، پہاڑی دامن اور کھلی فضا میں ہونے والے یہ اجتماعات خاص طور پر لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔

انہوں نے بتایا وہ اس ڈرم بیٹ سرکل سے مخصوص معاوضہ لیتے ہیں جو ایک ہزار روپے فی کس کے حساب سے ہوتا ہے۔

ندال بن طاہر کا کہنا ہے کہ وہ چھ سال سے باقاعدگی کے ساتھ ایسے پروگرام کر رہے ہیں۔ ابتدا میں یہ ایک چھوٹے گروپ کی سرگرمی تھی لیکن اب یہ ایک باقاعدہ کمیونٹی بن چکی ہے جسے ’ون ڈرم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ندال کے مطابق: ’ڈرم سرکل کا مقصد ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ کی تھکن، دباؤ اور ذہنی الجھنوں سے نکل کر ایک لمحہ سکون حاصل کریں۔ جب ہم سب مل کر ڈرم بجاتے ہیں، تو ایک ایسی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ لوگ رنگ، نسل یا فرقے سے بالاتر ہو کر ایک دائرے میں بیٹھیں اور خود کو ایک محسوس کریں  اسی لیے ہم نے اس گروپ کا نام ‘ون ڈرم’ رکھا۔‘

ڈرم سرکل  کے شرکا میں شامل رابعہ حسن کہتی ہیں: ’میں آج پہلی بار اس ایونٹ میں شامل ہوئی ہوں، مگر میں نے اس کے بارے میں پہلے بہت سنا تھا۔  جب آپ اجتماعی طور پر اپنی انرجی ریلیز کرتے ہیں، تو آپ کے اندر کی توانائی بڑھتی ہے، آپ خود کو زیادہ پرجوش اور صحت مند محسوس کرتے ہیں۔ یہ واقعی ذہنی صحت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیجیٹل بینکر  کے طور پر کام کرنے والے فہد نے بتایا کہ وہ روزمرہ کے دباؤ سے نکلنے کے لیے اس سرگرمی میں شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈرم بجاتے ہوئے ان کے ہاتھ تو آخر تک تھک جاتے ہیں، مگر ذہن کو جو سکون ملتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

ندال بن طاہر کے  مطابق لوگ روایتی طور پر اکٹھے ہو کر خوشی کے موقع پر ڈھول بجاتے ہیں اور یہ روایت انسانیت کے ابتدائی دور سے وابستہ ہے جب قدیم ادوار میں شکاری لوگ آگ کے گرد بیٹھ کر ڈھول بجاتے اور جشن مناتے تھے۔ یہی روایت آج ’ون ڈرم سرکل‘ کی شکل میں جدید طرز پر زندہ کی جا رہی ہے۔

ندال بن طاہر بتاتے ہیں کہ جب سب لوگ ہم آہنگی کے ساتھ ڈرم بجاتے ہیں تو دلوں میں اپنائیت، اتحاد اور توانائی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ صرف موسیقی نہیں بلکہ ایک تھراپی ہے۔

ان کے بقول، ڈرم سرکل آؤٹ برسٹ کا تصور قدیم افریقی روایات سے شروع ہوا تھا، جو اب پاکستان میں ایک نئے انداز سے زندہ ہے۔ دائرے میں ڈھول بجانے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ یہ ثقافتی تقسیم کو ختم کرتا ہے اور مختلف پس منظر کے لوگ ایک ہی ردھم پر متحد ہوجاتے ہیں۔

یہ فیوژن نہ صرف موسیقی کا جشن ہے بلکہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کی رنگا رنگی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’چاہے زندگی کتنی ہی مصروف کیوں نہ ہو، کبھی کبھی ایک دائرے میں بیٹھ کر، ہاتھوں سے ردھم پیدا کرنا، دلوں کو جوڑ دیتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی