ڈھول بجائیں، وائرس بھگائیں

اگر حالات یہی رہے تو ہمارے ارسطو سندھ اور پنجاب کے کاشت کاروں کی طرح ڈھول بجا کر وائرس کو بھگانے کا لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔

ادھر سے وینٹی لیٹرز منگوائے ادھر سے جہاز اور ریل گاڑیاں چلا دیں(اے ایف پی)

کرونا (کورونا) وائرس کی تباہی اب ملک کے ہر کونے میں پھیل چکی ہے۔ اکا دکا اموات اب روزانہ 60/70 جانوں کے ضیاع میں بدل گئی ہیں۔ جہاں پر انفیکشن کچھوے کی چال سے بڑھ رہی تھی اب آپ کو خرگوش کی دوڑ نظر آ رہی ہے۔ وہ دن اب قریب ہے کہ ایک لاکھ کی حد پار ہو جائے گی۔

آگے کیا ہوگا یہ سوچ کر دماغ گھوم جاتا ہے۔ کوئی شعبہ اس جان لیوا وائرس سے اب محفوظ نہیں۔ صحافی، سیاستدان، کاروباری، فوجی، پولیس، اساتذہ، بینکرز، اداکار و اداکارائیں اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹرز، نرسز اور ہسپتالوں کا عملہ ۔۔ ہر کسی کو یہ وائرس اپنی زد میں لیے ہوئے ہے۔

اس ماحول میں پر امن اور خوشحال مستقبل ایک دور کی جن پری کہانی سی لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک بدترین دور کا سامنا ہے جس میں معاش اور بودوباش سب کچھ بری طرح متاثر اور تبدیل ہو جائے گا۔ دنیا کے دوسرے گوشوں سے بھی ایسی کچھ خبریں مل رہی تھیں مگر اب کرونا سے متاثر بیشتر ممالک آہستہ آہستہ نارمل حالات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت کہ جب ہمارے یہاں کرونا ہر سو موت کا ناچ ناچ رہا ہے دنیا کا بڑا حصہ اس مصیبت کی خطرناک ترین سطح سے واپس آ کر حالات کو سنبھالنے میں مصروف ہے۔ برازیل، بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کو چھوڑ کر ’بعد از کرونا‘ کی بحث کا آغاز ہوتا سنائی دے رہا ہے۔

ہمارے یہاں فیصلہ ساز قوتوں میں کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آ رہی۔ عام الفاظ میں ٹھنڈ پروگرام ہے۔ سب اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہاں رسمی اجلاس اور اعداد و شمار سے بھرپور بریفنگز کا لنگر لگا ہوا ہے۔ ہر روز کھولا جاتا ہے اور درجنوں مانوس چہرے شکم سیر ہو کر واپس اپنے محفوظ گھروں میں چلے جاتے ہیں۔

خراب ہوتے ہوئے ماحول کے باوجود ہم نے ماسک کو لازمی قرار دینے کے علاوہ کسی اور قدم کا نہیں سوچا۔ یہی ماسک اور ایسی احتیاطی تدابیر اس وقت بھی لاگو کی جا رہی تھیں جب کرونا وائرس نے ملک میں وارد ہونا شروع کیا تھا۔ لیکن اب بھی اس کے خلاف ہمارے پاس ماسک پہننے اور چھینک کو بازو کے پیچھے روکنے کے علاوہ کوئی موثر ہتھیار نہیں۔

لاک ڈاؤن اب ماضی کا قصہ ہے -  اس نظام کو چلانے والے سیانے کہتے ہیں کہ جب تک اموات ہزاروں کی تعداد تک نہ پہنچیں لاک ڈاؤن جیسے اقدامات سے گریز ہی برتا جائے گا۔ لہذا اب وائرس کو کھلی چھوٹ ہے۔ جہاں پر مرضی ہے چلا جائے۔ جس کو چاہے اپنے جان لیوا حصار میں لے لے۔ جس گھر پر وار کرنا ہے کر دے۔ سرکاری طور پر اس کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

کرونا کو ایک دوسرے درجے کی ترجیح میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ پہلی ترجیح اپوزیشن کو ’تننا‘ اور اپنی مراعات والی نوکریوں کو بچانا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان میں مرنے کی گنجائش کافی ہے۔ مگر کاروبار اور روزگار کے مواقع محدود ہیں۔

اتنی بڑی آبادی کا کم از کم یہ فائدہ تو ہے کہ درجنوں یا سینکڑوں اموات بھی کم معلوم ہوتی ہیں۔ لہذا لگا رہے وائرس۔ زیادہ مریں گے تو دیکھیں گے۔ لیکن نوکری کا جانا ایک عذاب محسوس ہوتا ہے چونکہ غربت پہلے سے ہی بہت پھیلی ہوئی ہے اور معیشت کا حلیہ ناقابل شناخت حد تک بگڑ گیا ہے۔

پس عوام کو کام کرنے دو۔ زندگی آنی جانی شے ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ غربت کا سب سے زیادہ واویلا وہ حلقے کر رہے ہیں جو سر سے لے کر پاؤں تک دولت میں لدھے ہوئے ہیں۔ یہ کوئی اچھنبے کا امر نہیں ہے کہ کرونا وبا کے دوران سب سے زیادہ مراعات اس کاروباری طبقے نے حاصل کیں جس کا منافع اربوں میں اور نقصان کروڑوں روپے میں ہوا۔

عوام کو دی گئی ریلیف کے اعداد و شمار دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ مراعات یافتہ طبقے کو دی گئی معاشی سہولت سے یہ کئی گنا کم ہے۔ مگر پھر یہ مثبت رپورٹنگ کا ہی کارنامہ ہے کہ عوام کو دی گئی چونیاں اور اٹھنیاں ہر وقت میڈیا پر کھنکتی ہیں جبکہ مراعات کی خاموش بارش امرا پر مسلسل برسائی جا رہی ہے۔

ہاں عوام کے لیے کیے گئے انتظامات میں معلومات کے نام پر مختلف قسم کی تجرباتی افواہوں کا بازار خوب گرم ہے۔ اس میں ہر کسی اہم عہدے دار نے آوازیں لگا لگا کر شہریوں کو خوب گمراہ کیا ہے۔ ہمیں بتاتے رہے کہ جب سردی آئے گی تب وائرس بھاگے گا۔ اب گرمی عروج پر ہے اور وائرس بھاگ بھاگ کر جان لے رہا ہے۔

پھر کہا کہ کیوں کہ یہ وائرس ’کوئی اور قسم‘ کا ہے لہذا عین ممکن ہے کہ ہمیں زیادہ نقصان نہ پہنچائے۔ وہ بھی نہ ہوا۔ پھر یہ افواہ پھیلائی کہ پولیو اور ٹی بی کے علاج کے لیے دی گئی دوائیوں نے ہمارے جسموں کو اتنا توانا رکھا ہے کہ یہ وائرس سر پیٹ کر واپس چلا جائے گا۔ ایسا کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھر امریکی صدر ٹرمپ کی کئی بےوقوفیوں میں کلوروکوئن کے ذریعے علاج کی حماقت کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ اب پتہ چلا ہے کہ اس دوائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ لاک ڈاؤن کے ساتھ بھی بس گلی ڈنڈا کھیلتے رہے۔ ادھر سے کہا مت باہر جاو ۔اُدھر سے فرمایا باہر آو روزی کماو۔

ادھر سے وینٹی لیٹرز منگوائے ادھر سے جہاز اور ریل گاڑیاں چلا دیں۔ ادھر سے پارک کھولے۔ ادھر وبا کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونے والے ڈاکٹروں اور نرسوں کو سلام پیش کیا۔ آج بھی یہ کھیل جاری ہے۔

حماد اظہر شادی ہال کھلوانا چاہتے ہیں اور آدھی کابینہ کہہ رہی ہے کہ ماسک کے بغیر باہر نکلنا جرم قرار دے دینا چاہیے۔ عوام اس عمل میں بےوقوف تماشائی کی طرح ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ رہی ہے۔ مگر سرکاری تجزیہ نگار اس کو بہترین پالیسی قرار دے کر شکریہ وزیر اعظم کی تشہیری مہم چلانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

ظاہر ہے ان حالات میں وہ طبقہ جو اپنی جان کے تحفظ کے بارے میں حقیقی طور پر پریشان ہے بےبسی کے آخری نکتے پر کھڑا دل میں سب کو کوس رہا ہے کیوں کہ باآواز بلند کوسنے سے اداروں کی ہتک ہوتی ہے اور ملک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

اگر حالات یہی رہے تو ہمارے ارسطو سندھ اور پنجاب کے کاشت کاروں کی طرح ڈھول بجا کر وائرس کو بھگانے کا لائحہ عمل بنا سکتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ ٹڈی دل کی طرح وائرس بھی ڈھول اور شور شرابے سے متاثر نہیں ہوتا اور اپنی تباہی پھیلاتا رہتا ہے۔

بہرحال اس روح فرسا ماحول میں یہ تو واضح ہو گیا کہ ہمارا نظام تمام قومی مسائل کو ایک ہی انداز سے نمٹنے کی خاص صلاحیت رکھتا ہے۔ کشمیر ہو یا کرونا، معاشی بحران ہو یا ٹڈی دل ہر جگہ اس نظام کو ایک قدرتی کرشمے کی تلاش رہتی ہے۔ اس کی اپنی کاوش محض میٹنگز اور نہ ختم ہونے والی بےکار پلاننگ تک محدود رہتی ہے جس سے وقت اچھا گزر جاتا ہے مگر نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔

یہ نظام اور اس کے چلانے والے چرب زبانی اور ڈنگ ٹپانے کے ماہر ہیں۔ جہل اور معاشی تنگی کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے معاشرے میں اس سے زیادہ قابلیت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ