امریکی سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن نے حالیہ تحقیق میں کہا ہے کہ ٹک ٹاک اور انسٹاگرام ریلز کا حد سے زیادہ استعمال ذہنی کارکردگی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس تحقیق کے لیے 71 مطالعات کے 98,299 شرکا سے حاصل کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ جتنا زیادہ مختصر ویڈیوز کا مواد کوئی شخص دیکھتا ہے، اس کی توجہ اور خود پر قابو کی صلاحیت اتنی ہی کمزور پائی گئی — یعنی ایسے افراد کے لیے توجہ مرکوز کرنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
محققین کے مطابق ’انتہائی محرک اور تیز رفتار مواد کی بار بار نمائش عادت بننے کا سبب بن سکتی ہے، جس کے نتیجے میں صارفین سست رفتار اور زیادہ ذہنی محنت والے کاموں—جیسے پڑھنا، مسئلے حل کرنا یا گہری سیکھنے—کے لیے بےحس ہو جاتے ہیں۔‘
مختصراً، محققین نے کہا کہ اس کا نتیجہ برین روٹ کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مختصر ویڈیوز کے استعمال کا تعلق کمزور ذہنی صلاحیت (توجہ، خود پر قابو، زبان، یادداشت اور ورکنگ میموری) اور زیادہ تر دماغی صحت کے مسائل سے تھا، سوائے جسمانی تصور (body image) اور خود اعتمادی کے۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق برین روٹ کی تعریف یوں ہے ’کسی شخص کی ذہنی یا فکری حالت کی بگاڑ، جو بالخصوص ایسے مواد (اب زیادہ تر آن لائن مواد) کے حد سے زیادہ استعمال کے نتیجے میں سمجھا جاتا ہے، جو غیر سنجیدہ یا ذہنی محنت طلب نہ ہو۔‘
یہ 2024 میں آکسفورڈ ڈکشنری کا ’ورڈ آف دی ایئر‘ بھی تھا، جو ’کم معیار، کم قدر‘ کے مواد اور اس کے انسان یا معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات دونوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
تحقیق میں مختصر ویڈیوز کے استعمال کو ذہنی صحت پر منفی اثرات، بشمول بڑھے ہوئے تناؤ اور بےچینی، سے بھی جوڑا گیا۔
محققین نے لکھا ’مسلسل سوائپ کرنے اور جذباتی طور پر محرک نئے مواد کے ملتے رہنے کا سلسلہ ڈوپامائن کے اخراج کو بڑھا سکتا ہے، جس سے ایک ایسا سلسلہ بنتا ہے جو عادت بننے اور ڈیجیٹل تعاملات پر جذباتی انحصار میں اضافہ کرتا ہے۔‘
’یہ مسلسل مصروفیت زیادہ تناؤ اور بےچینی سے جڑی ہو سکتی ہے، جیسا کہ کچھ صارفین بتاتے ہیں کہ انہیں آف لائن دنیا میں خود کو الگ کرنا اور جذبات پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ مختصر ویڈیوز کا حد سے زیادہ استعمال سماجی تنہائی اور زندگی کی مجموعی تسلی میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ ان ایپس کا استعمال ’حقیقی دنیا کے میل جول کی جگہ غیر فعال ڈیجیٹل مصروفیت لے کر آتا ہے، جس سے تنہائی کے احساسات میں اضافہ ہوتا ہے‘ اور یہ بھی کہ ’آن لائن تعاملات پر انحصار کا تعلق زندگی کی کم سطحی اطمینان سے بھی پایا گیا ہے۔‘
یہ پہلی بار نہیں کہ محققین نے ڈیجیٹل دور میں ذہنی صلاحیت میں کمی پر تشویش ظاہر کی ہو۔
مصنوعی ذہانت کے ذہنی کارکردگی پر اثرات سے متعلق میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کی ایک نمایاں تحقیق میں پایا گیا کہ وہ طلبہ جنہوں نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے مضمون لکھا، ان کے دماغی افعال بہت کم سرگرم تھے اور وہ اپنی تحریر کا ایک بھی جملہ دوبارہ یاد نہ کر سکے۔
جن افراد نے کسی قسم کی ٹیکنالوجی استعمال نہیں کی تھی وہ سب سے زیادہ یاد رکھ سکے جبکہ جنہوں نے گوگل سرچ استعمال کیا وہ درمیان میں رہے۔
اسی طرح میڈیکل جریدے JAMA میں شائع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان فرانسسکو کی تحقیق—جسے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا—میں پایا گیا کہ روزانہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بچوں کی مطالعہ، یادداشت اور الفاظ کے ذخیرے کی کارکردگی ان بچوں سے نمایاں طور پر کم تھی جنہوں نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے۔
© The Independent