ڈنمارک: 15 سال تک کے بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر پابندی

اس سے قبل آسٹریلوی پارلیمنٹ نے دنیا میں پہلی بار 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال کرنے پر پابندی لگائی جو دسمبر میں نافذ العمل ہو گی۔

آسٹریلیا کے شہر گوسفرڈ میں 24 اکتوبر 2025 کو لی گئی تصویر میں 14 سالہ بچہ موبائل فون پر فیس بک پیج دیکھ رہا ہے (اے ایف پی)

ڈنمارک نے ایک تاریخی سیاسی اتفاق رائے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 15 سال سے کم عمر بچوں کی سوشل میڈیا تک رسائی ممنوع ہوگی۔ یہ قدم بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے اٹھایا گیا ہے کیوں کہ کم عمر صارفین کو ہدف بنانے والے نقصان مواد کے اثرات اور تجارتی استحصال پر عالمی خدشات بڑھ رہے ہیں۔

اگرچہ نئے قانون کے تحت مخصوص جانچ پڑتال کے بعد والدین اپنے 13 اور 14 سالہ بچوں کو سوشل میڈیا تک رسائی دے سکیں گے تاہم اتنی وسیع پابندی کے عملی نفاذ سے متعلق بڑے سوالات برقرار ہیں۔

کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے پہلے ہی اپنے پلیٹ فارمز پر عمر کے حوالے پابندی عائد کر رکھی ہیں تاہم حکام اور ماہرین کی اکثریت  تسلیم کرتی ہے کہ کم عمر بچے اکثر ان پابندیوں سے آسانی کے ساتھ بچ نکلتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ اقدامات بڑی حد تک غیر مؤثر رہتے ہیں۔

یہ قدم کم عمر طبقات میں سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے یورپی یونین کی کسی حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے سب سے دور رس اقدامات میں سے ایک ہے۔

ڈنمارک کی وزیر برائے ڈیجیٹلائزیشن کیرولین سٹیج نے بچوں کی آن لائن پلیٹ فارمز پر وسیع موجودگی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ 13 سال سے کم عمر ڈینش بچوں میں 94 فیصد اور 10 سال سے کم عمر کے نصف سے زیادہ بچوں کے پہلے ہی سوشل میڈیا پروفائلزموجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ آن لائن جتنا وقت گزارتے ہیں، آن لائن انہیں جس قدر تشدد اور خود کو نقصان پہنچانے والے مواد کا سامنا ہوتا ہے، وہ ہمارے بچوں کے لیے حد سے زیادہ خطرہ ہے۔‘

قانون سازی میں جلد بازی نہیں، ٹیک کمپنیوں کے لیے کوئی راستہ نہیں

کیرولین سٹیج نے کہا کہ پابندی فوراً نافذ نہیں ہوگی۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون ساز جن کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے، قانون سازی میں شائد کئی مہینے لگائیں گے۔

اان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ ڈنمارک تیزی دکھائے گا، لیکن ہم اسے حد سے زیادہ جلدی میں نہیں کریں گے، کیوں کہ ہمیں یقین دہانی کرانی ہے کہ قانون درست ہو اور دیوقامت ٹیک کمپنیوں کے لیے اس میں کوئی راستہ نہ بچے۔‘ ان کی وزارت نے کہا کہ ٹیک کمپنیوں کے کاروباری ماڈلز کا دباؤ ’انتہائی زیادہ‘ ہے۔

یہ اقدام آسٹریلیا میں اٹھائے گئے قدم کے بعد سامنے آیا، جہاں پارلیمنٹ نے دسمبر سے بچوں کی سوشل میڈیا تک رسائی پر دنیا کی پہلی پابندی نافذ کی اور اس ضمن میں کم از کم عمر 16 سال مقرر کی۔

اس کے نتیجے میں ٹک ٹاک، فیس بک، سنیپ چیٹ، ریڈاِٹ، ایکس اور انسٹاگرام سمیت پلیٹ فارمز کو اس بات پر کہ وہ 16 سال سے کم عمر بچوں کے اکاؤنٹس روکنے میں منظم طور پر ناکام نہ رہیں، زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ آسٹریلوی ڈالر (ڈھائی کروڑ پاؤنڈ) تک کے جرمانوں کی زد میں کر دیا گیا۔

ڈنمارک کے حکام نے یہ نہیں بتایا کہ ایسی پابندی کو اس دنیا میں کیسے نافذ کیا جائے گا جہاں کروڑوں بچوں کو سکرینوں تک آسان رسائی حاصل ہے۔

لیکن کیرولین سٹیج نے نشاندہی کی کہ ڈنمارک کے پاس قومی الیکٹرانک آئی ڈی نظام موجود ہے اور13 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً تمام ڈینش شہریوں کے پاس یہ آئی ڈی ہے۔ حکومت عمر کی تصدیق کی ایک ایپ قائم تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یورپی یونین کے کئی اور ممالک بھی ایسی ایپس کو آزمائشی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

’ہم دیوقامت ٹیک کمپنیوں کو اپنی ایپ استعمال کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے، لیکن ہم یہ ضرور لازم کر سکتے ہیں کہ وہ مناسب عمر کی تصدیق کریں، اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ہم یورپی کمیشن کے ذریعے اسے نفاذ کر سکیں گے اور یہ یقینی بنائیں گے کہ ان پر ان کی عالمی آمدنی کے چھ فیصد تک جرمانہ ہو۔‘

آن لائن نقصان دہ مواد سے بچوں کو بچانے کی کوشش

بہت سی حکومتیں اس کوشش میں ہیں کہ آن لائن ٹیکنالوجیز کے فوائد کو حد سے زیادہ محدود کیے بغیر ان کے نقصان دہ اثرات کو کیسے محدود کیا جائے۔ کیرولین سٹیج نے کہا کہ ڈنمارک کی قانون سازی کی کوشش ’بچوں کو ہر طرح کے ڈیجیٹل مواد سے الگ کرنے‘ کے لیے نہیں بلکہ انہیں مضر مواد سے دور رکھنے کے لیے ہے۔

چین جو دنیا کے بہت سے ڈیجیٹل آلات تیار کرتا ہے، نے بچوں کے لیے آن لائن گیم کے وقت اور سمارٹ فون کے استعمال کی حد مقرر کر رکھی ہے۔

اس ہفتے پیرس کے استغاثہ نے اس الزام کی تحقیقات کا اعلان کیا کہ ٹک ٹاک خودکشی کی ترغیب دینے والا مواد دکھاتا ہے اور اس کے الگورتھمز کمزور نوجوانوں کے اپنی جان لینے کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔

ڈینش وزارت نے کہا: ’بچوں اور نوجوانوں کی نیند متاثر ہوتی ہے۔ وہ سکون اور یکسوئی کھو دیتے ہیں اور انہیں ڈیجیٹل تعلقات سے بڑھتا ہوا دباؤ محسوس ہوتا ہے جہاں بالغ ہمیشہ موجود نہیں ہوتے۔ یہ ایسی صورت حال ہے جسے والدین، استاد یا معلم اکیلے نہیں روک سکتے۔‘

یورپی یونین کا ڈیجیٹل سروسز ایکٹ، جو دو سال پہلے نافذ ہوا، 13 سال سے کم عمر بچوں کو ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا، یوٹیوب اور ٹوئچ جیسے ویڈیو پلیٹ فارمز، اور ریڈاٹ اور ڈسکارڈ جیسی سائٹس سمیت اے آئی کمپینینز پر اکاؤنٹ رکھنے سے روکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز برسوں سے 13 سال یا اس سے کم عمر افراد کو اپنی سروسز کے لیے سائن اپ کرنے سے روکتے آئے ہیں۔ ٹک ٹاک صارفین اپنی عمر کی تصدیق ایک سیلفی بھیج کر کر سکتے ہیں جس کا تجزیہ کر کے ان کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ میٹا پلیٹ فارمز، جو انسٹاگرام اور فیس بک کی مالک کمپنی ہے، کہتی ہے کہ وہ ویڈیو سیلفیز کے لیے اسی طرح کا نظام اور اے آئی استعمال کرتی ہے تاکہ صارف کی عمر معلوم کرنے میں مدد ملے۔

میٹا اور ٹک ٹاک نے فوری طور پر اے پی کی تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

کیرولین سٹیج کا کہنا تھا کہ ’ہم نے دیوقامت ٹیک کمپنیوں کو ان کے پلیٹ فارمز پر پیش آنے والے مسائل کے خلاف کھڑے ہونے اور کچھ کرنے کے بے شمار مواقعے دیے ہیں۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لہٰذا اب ہم معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں گے اور یقینی بنائیں گے کہ ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل