نیپال میں سوشل میڈیا پابندی کے خلاف احتجاج، پولیس فائرنگ سے 17 اموات

نیپال میں جب حکومت نے فیس بک اور یوٹیوب سمیت 26 پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دی تو لوگوں نے پارلیمان پر دھاوا بول دیا۔

نیپالی دارالحکومت کٹھمنڈو میں پیر کے روز اس وقت کم از کم 17 مظاہرین مارے گئے جب پولیس نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔

مظاہرین حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ سوشل میڈیا پر پابندی ختم کی جائے۔

جمعے کے روز حکومت نے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سمیت 26 غیر رجسٹرڈ پلیٹ فارمز تک رسائی بند کر دی تھی جس کے بعد صارفین میں غصہ اور بے چینی پھیل گئی۔

پولیس نے اس وقت ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس، واٹر کینن اور لاٹھی چارج کیا جب مظاہرین خاردار تاریں کاٹ کر پارلیمان کے قریب ممنوعہ علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

کھٹمنڈو ویلی پولیس کے ترجمان شیکھر کھنال نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’17 افراد مارے جا چکے ہیں۔‘ ان کے مطابق تقریباً 400 افراد زخمی ہوئے جن میں 100 سے زائد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق پرتشدد جھڑپوں کے بعد وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے کابینہ اجلاس میں استعفیٰ دے دیا۔

20  سالہ ایمان مگر، جو مظاہرے میں شریک تھے، نے کہا، ’میں پرامن احتجاج کے لیے آیا تھا لیکن حکومت نے طاقت کا استعمال کیا۔ یہ ربڑ کی گولی نہیں بلکہ دھات کی گولی تھی جس سے میرے ہاتھ کا حصہ ضائع ہو گیا۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں آپریشن کرنا پڑے گا۔‘

شہر میں ایمبولینسوں کے سائرن گونجتے رہے اور درجنوں زخمی اسپتال پہنچائے گئے۔ سول اسپتال کی اطلاعاتی افسر رنجنا نیپال نے کہا، ’میں نے اسپتال میں اتنا ہولناک منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ آنسو گیس اسپتال کے احاطے تک پہنچ گئی جس سے ڈاکٹروں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالمی ردِعمل

اقوام متحدہ نے اموات اور زخمیوں کے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
یو این ہیومن رائٹس آفس کی ترجمان رویہ شمدا سانی نے کہا، ’ہمارے پاس سکیورٹی فورسز کی طرف سے غیر ضروری یا غیر متناسب طاقت کے استعمال کی کئی سنگین شکایات موصول ہوئی ہیں۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ مظاہرین کے خلاف براہِ راست گولیاں چلائی گئی ہیں۔

ضلعی انتظامیہ نے شہر کے کئی اہم علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا جن میں پارلیمان، صدارتی رہائش گاہ اور سنگھ دربار (وزیراعظم کا دفتر) شامل ہیں۔ مظاہرین نے پارلیمان کی دیوار پھلانگنے کی کوشش کی اور مرکزی دروازے کو بھی نقصان پہنچایا۔ ملک کے دیگر اضلاع میں بھی اسی نوعیت کے مظاہرے ہوئے۔

انسٹاگرام سمیت کئی پلیٹ فارمز کے لاکھوں صارفین نیپال میں تفریح، خبر اور کاروبار کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔

24  سالہ طالبعلم یوجن راج بھنڈاری نے کہا، ’سوشل میڈیا پر پابندی نے تو ہمیں مشتعل کیا لیکن ہم یہاں صرف اسی لیے نہیں جمع ہوئے۔ ہم اس ادارہ جاتی بدعنوانی کے خلاف ہیں جو نیپال میں جڑ پکڑ چکی ہے۔‘

ایک اور طالبہ، 20 سالہ اکشما تومروک، نے کہا، ’ہم حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب ہماری نسل پر ختم ہونا چاہیے۔‘

حکومتی موقف

کابینہ نے گذشتہ ماہ فیصلہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو سات دن کے اندر نیپال میں رجسٹریشن کرانا ہو گا، ایک مقامی نمائندہ مقرر کرنا ہو گا اور شکایات و تعمیل کے لیے مستقل افسران تعینات کرنا ہوں گے۔ یہ فیصلہ گذشتہ سال ستمبر میں سپریم کورٹ کے ایک حکم کے بعد کیا گیا تھا۔

حکومت نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا کہ وہ آزادیِ رائے اور اظہارِ خیال کا احترام کرتی ہے اور ان کے ’تحفظ اور بلا روک ٹوک استعمال کے لیے سازگار ماحول‘ بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ نیپال میں آن لائن پلیٹ فارمز کو محدود کیا گیا ہو۔ گذشتہ سال جولائی میں حکومت نے ٹیلی گرام ایپ پر اس بنیاد پر پابندی عائد کی تھی کہ اس کے ذریعے آن لائن دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسی طرح، ٹک ٹاک پر بھی نو ماہ تک پابندی رہی جسے اگست 2023 میں اس وقت اٹھایا گیا جب کمپنی نے نیپالی قوانین کی پاسداری پر آمادگی ظاہر کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل