سانحہ سوات: سیاح سیانے نہیں ہوتے!

سیانا آدمی دریا کے راستے اور سانپ کی لکیر پر کبھی پیر نہیں رکھتا، لیکن سیاح سیانے نہیں ہوتے۔ ایڈونچر کا جذبہ انسان کو کوہِ ندا کی طرح پکارتا ہے، ’اب آؤ، اب آؤ۔‘

پاکستان کی وادی سوات میں 27 جون 2025 کو پکنک پر آنے والے سیاحوں کے دریائے سوات میں سیلابی پانی میں بہہ جانے کے بعد رہائشی جائے وقوعہ پر جمع ہیں (روئٹرز)

فطرت بے رحم ہے اور انسان قدرتی آفات کے سامنے بے بس ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بارہا ہوا۔ تمام تر انسانی عقل، سوچ سمجھ، ہوش و حواس، ترقی کے باوجود، فطرت کی ایک کروٹ، انسان کو یہ یاد دلا دیتی ہے کہ وہ کتنا بے بس ہے۔

80 کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے کہ ہماری امی، بہن کا رشتہ دیکھنے کے بہانے سے راولپنڈی گئیں اور کافی دن بعد جب لوٹیں تو معلوم ہوا کہ رشتہ وشتہ تو کیا دیکھنا تھا، پنڈی سے نتھیا گلی، شنکیاری، بشام، سوات، کاغان سیف الملوک سے ہوتی ہوئی آئی ہیں۔

اس زمانے میں نہ سیل فون ہوا کرتے تھے اور نہ ہی سڑکیں اتنے بہتر حال میں تھیں۔ امی کے ساتھ میرے بڑے بھائی تھے اور ٹیوٹا کی نئی لینڈ کروزر۔ اس اعتماد پر وہ ایک بےحد خطرناک سفر کر آئیں۔

اسی دوران مستنصر حسین تارڑ صاحب کے شمال کے سفر نامے آنے شروع ہوئے۔ سڑکیں بہتر ہوئیں، پہلے سینہ گزٹ، اس کے بعد تصاویر، پھر موبائل فون سے رابطوں کی آسانی اور آخر سوشل میڈیا نے شمال کے خوفناک سفر کو ہر شخص کے لیے ایک ایڈونچر کی بجائے تفریح میں بدل دیا۔

میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں موسم گرما شروع ہوتے ہی شمال کے سفر کی ہڑک اٹھتی ہے۔ چاہے خنجراب پاس ہو، دیو سائی کا میدان ہو، پسو کونز ہوں، لولو سر جھیل ہو، مہوڈنڈ کا کنارہ ہو یا نگر اور کریم آباد، ہر جگہ کیمپنگ بھی کی اور دریاؤں، جھیلوں کے کنارے رات بھر جاگ کے ستارے بھی گنے۔

شمال کا سفر بے حد خطرناک ہے اور لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب، جنگلی حیات، چوری ڈاکے، ایکسیڈنٹ، بیماری ہر آفت کا ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ کئی واقعات ایسے بھی ہوئے کہ لگا آج تو بچنا مشکل ہے، لیکن زندگی تھی تو بچ گئے۔

وقت ہمیشہ مہربان نہیں ہوتا۔ موسمیاتی تبدیلی اور شمال کے تغیر پذیر لینڈ سکیپ کے ساتھ احمقانہ چھیڑ چھاڑ نے شمال کے سفر کو دن بدن غیر محفوظ سے غیر محفوظ تر کر دیا ہے۔

ایک ادارہ ہوا کرتا تھا ٹی ڈی سی پی، شاید اس کی ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری لوگوں میں سیاحت کے ذوق کے ساتھ احتیاطی تدابیر کو متعارف کروانا بھی تھا۔

ایک ادارہ ہوتا ہے عوامی شعور، جس میں کوئی کسی کو تنخواہ نہیں دیتا مگر بنیادی شعور ضرور بانٹتا ہے۔ اس اجتماعی عوامی شعور سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ حادثات کی تعداد میں کمی ممکن ہے۔ حادثے کو ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

میں نے لکھا تھا کہ سیانا آدمی دریا کے راستے اور سانپ کی لکیر پر کبھی پیر نہیں رکھتا، لیکن سیاح سیانے نہیں ہوتے۔ ایڈونچر کا جذبہ انسان کو کوہِ ندا کی طرح پکارتا ہے، ’اب آؤ، اب آؤ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہاڑی دریا کب بپھر جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جمعے کے روز سوات میں جو دل خراش واقعہ پیش آیا اس میں سوائے اس بات کے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ دریا کنارے بننے والے ہر ہوٹل کے پاس ایک ریفٹ اور  ہنگامی حالات سے نمٹنے کے ضروری آلات ہونے چاہییں۔

پیٹرول پمپ پر جس طرح رہت کی بالٹیاں اور آگ بجھانے کے آلات ہمہ وقت میسر ہوتے ہیں، ان ہوٹلوں میں بھی ایسا انتظام ہونا چاہیے۔

کچھ عرصے پہلے موسم سرما میں مری میں سیاحوں کے رش کے باعث ایک ناخوشگوار واقعہ ہوا۔ کیوائی روڈ، ہر برس سیاحوں کے ہجوم کے باعث بند ہو جاتی ہے۔ ہر سال پہاڑی ندی نالے جانے کتنے سیاحوں کو بہا کر لے جاتے ہیں۔

اس صورت حال کا کیا حل ہے؟ کیا قصور وار سیاح ہیں؟ میں اپنے سیاحتی تجربوں پر نظر کروں تو بے شمار احتیاطی تدابیر اپنانے کے باوجود مجھ سے بھی بہت حماقتیں ہوئیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ صورت حال ایسی تھی کہ اس وقت وہی فیصلہ ممکن تھا، جو عام حالات میں حماقت شمار ہوتا ہے۔

پانی کی نذر ہونے والے ایک خشک دریا میں لوگ تصویر بنانے گئے۔ سیلابی ریلہ آنے پر انہوں نے ایک بلند مقام پر پناہ تلاش کی۔ دوسری صورت میں کنارے تک جانے کے لیے پانی راہ میں مزاحم تھا۔

ڈوبنے والوں کو بچایا جا سکتا تھا۔ وسائل کی بروقت دستیابی اور حاضر دماغی شاید یہ معجزہ دکھا سکتی تھی۔ شمال کے ایک دریا کا ہی ذکر نہیں، وہاں کے سب دریا قاتل ہیں۔

دریائے کنہار ہو، سندھ یا چترال۔ اس وقت بھی عطا آباد جھیل کے کنارے بنے ہوٹلز راستے سے کٹ چکے ہیں۔ سیاحتی مقامات پر موجود ان خطرات کو دور کرنے کے لیے ایک مربوط پالیسی اور عوامی شعور کی ضرورت ہے۔

حادثات اس کے باوجود ہوتے ہیں۔ حادثے پھر بھی ہوتے رہیں گے، مگر اس وقت وہ بے بسی محسوس نہیں ہو گی جو دریائے سوات میں پھنسے اس کنبے اور اس سے پہلے 2022 میں کچھ مقامی لوگوں کو لمحہ بہ لمحہ موت کے منہ میں جاتا دیکھ کر ہوئی۔

یہ منظر شاید ہم کبھی نہ بھول سکیں۔ دکھ اور بے بسی کے اس لمحے نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ زندگی صرف چار بڑے شہروں میں محدود نہیں ہے۔ گورننس ملک کے ہر کونے میں یکساں نظر آنی چاہیے۔

اس سانحے پر پورا ملک دکھی ہے، خدا اس کنبے کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے، مرحومین کی مغفرت فرمائے اور اس ملک کو چلانے والوں کو اتنی توفیق دے کہ آنے والے برسوں میں ایسے ناخوشگوار واقعات کم سے کم رونما ہوں۔ آمین

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر