پاکستان کے سیاحتی مقامات خاص طور پر شمالی علاقہ جات میں رواں سال مختلف حادثات میں متعدد سیاح یا تو جان سے جا چکے ہیں یا زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ حادثات گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات جیسے کاغان ناران، شانگلہ، بونیر، کالام اور دیگر علاقوں میں پیش آئے۔
سب سے پہلے رواں سال کے پچھلے دو تین مہینوں میں بڑے حادثات پر نظر دوڑاتے ہیں، جن میں سیاح مختلف نوعیت کے حادثات میں جان سے گئے۔
یکم مئی ۔ کوہستان میں آلٹو گاڑی کو حادثہ
راولپنڈی سے گلگت بلتستان جانے والے سیاحوں کی آلٹو گاڑی کوہستان کے مٹہ بانڈہ کے مقام پر گہری کھائی میں جا گری، جس میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد جان سے چلے گئے۔
25 مئی ۔ گلگت بلتستان حادثہ
گلگت بلتستان کے ضلع روندو میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے چار سیاح دوستوں کی گاڑی لاپتہ ہوگئی اور پانچ دن بعد گاڑی سکردو روڈ پر استک نالے کے قریب گہری کھائی میں سے برآمد ہوئی، جس میں چاروں دوست جان سے چلے گئے تھے۔
27 مئی ۔ شانگلہ حادثہ
پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے تین افراد مارتونگ کے علاقے میں حادثے کا شکار ہوئے تھے، جس میں ریسکیو 1122 کے مطابق خاتون سمیت تین افراد جان سے چلے گئے تھے۔
16 جون ۔ گلگت کیری وین حادثہ
گلگت میں ہرپون کے علاقے میں ریسکیو 1122 کے مطابق ایک کیری وین دریا میں گر گئی، جس میں پانچ افراد لاپتہ ہوگئے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق ان لاپتہ افراد کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں ہوئیں جبکہ حادثے میں تین افراد زخمی بھی ہوئے تھے۔
28 جون ۔ بونیر حادثہ
خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں ریسکیو 1122 کے مطابق کڑاکڑ کے مقام پر ایک گاڑی بے قابو ہو کر گہری کھائی میں جا گری تھی، جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوئے تھے۔
20 جون ۔ ناران سوہنی آبشار حادثہ
خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقام ناران میں ضلعی انتظامیہ کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاح سوہنی آبشار کے قریب تصویریں بنا رہے تھے کہ گلیشیئر ان پر گرنے سے دو بچوں سمیت تین افراد جان سے چلے گئے۔
20 جون ۔ کالام کشتی حادثہ
خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقام کالام کے علاقے اتروڑ میں ریسکیو حکام کے مطابق ایک کشتی انجن فیل ہونے کی وجہ سے ڈوب گئی تھی۔ کشتی میں 10 افراد سوار تھے جبکہ حادثے میں پانچ افراد جان سے چلے گئے۔
27 جون ۔ سوات سیلاب حادثہ
شدید بارشوں کی وجہ سے دریائے سوات میں سیلاب آنے کی وجہ سے سوات بائی پاس کے قریب 17 سیاح دریا کے درمیان پھنس گئے تھے، جن میں سے 13 افراد ڈوب کر جان سے چلے گئے جبکہ چار کو ریسکیو کر لیا گیا۔
اس حادثے میں جان سے جانے والے 10 سیاحوں کا تعلق پنجاب کے ضلع سیالکوٹ سے تھا جبکہ تین افراد کا تعلق مردان سے تھا۔
ریسکیو حکام کے مطابق یہ حادثات مختلف وجوہات کی بنا پر پیش آئے، جن میں تیز رفتاری، بریک فیل ہو جانا، لاپرواہی، تھکاوٹ اور دوران ڈرائیونگ نیند طاری ہونا شامل ہے۔
حادثات سے بچے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
سوال یہ ہے کہ سیاح جو خاص کر پہاڑی علاقوں میں سیاحت کی غرض سے جاتے ہیں، ان کو اس قسم کے حادثات سے بچنے کے لیے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہییں؟
اسمار حسین پیشے کے لحاظ سے فوٹوگرافر ہیں اور گذشتہ 17 سال سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں جا کر وہاں کی خوبصورتی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا: ’جہاں تک میں نے دیکھا ہے، زیادہ تر سیاح پہاڑی علاقوں کی دشوار گزاری کو نظر انداز کرتے ہیں جبکہ کسی بھی پہاڑی علاقے میں جانے سے پہلے وہاں کے موسم، اونچائی اور سڑکوں کی حالت کے بارے میں پہلے سے معلومات لینا ضروری ہے۔‘
بقول اسمار: ’زیادہ اونچائی یا پہاڑی علاقوں میں موسم چند سیکنڈز میں تبدیل ہو سکتا ہے، اسی وجہ سے سیاحوں کے لیے موسم کا احوال جاننا بے حد ضروری ہے۔‘
تاہم اسمار کے مطابق ہر خوبصورت اور دلکش منظر کی تصویر لینا بھی ضروری نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا: ’بعض دفعہ میں بہت دشوار گزار مقامات پر جا کر تصویریں بنا لیتا ہوں لیکن اس کی تشہیر اس وجہ سے نہیں کرتا کہ شاید کوئی سیاح اس مقام پر جانے کی کوشش میں حادثے کا شکار نہ ہو جائے۔‘
اسمار کے مطابق: ’بہت سے واقعات میں ہم نے دیکھا ہے کہ سیاح کسی جگہ پر تصویر یا ویڈیوز بنانے کے دوران حادثات کا شکار ہو گئے ہیں جبکہ بعض مقامات جو دشوار گزار ہوں، اس کی ویسے بھی تشہیر ضروری نہیں ہے کیونکہ کچھ جگہیں اپنی قدرتی حالت میں رہنا ہی بہتر ہے۔‘
حکومتی ہدایات اور عمل درآمد
صلاح الدین لیٹزو ٹریل اینڈ ٹور کمپنی کے سربراہ ہیں اور مختلف مقامات پر سیاحتی دوروں کے انتظامات کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی سیاحتی مقام پر جانے سے پہلے گاڑی کی فٹنس چیک کرنا بہت ضروری ہے اور اس کے بعد ہی اپنا سفر شروع کرنا چاہیے۔
صلاح الدین نے بتایا کہ اس میں حکومت کی بھی بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاحوں کے لیے کسی سیاحتی مقام کے حوالے سے تمام تر ہدایات کی تشہیر کریں۔
’خاص کر وہ مقامات جو دریا کے کنارے بنے ہوئے ہیں، تو وہاں کے ہوٹلوں کے لیے بھی ایس او پیز بنانے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ٹور آپریٹرز کے ساتھ جانے والے سیاحوں کو پیشگی ہدایات جبکہ متعلقہ اداروں کی جانب سے ٹور آپریٹرز کی ٹریننگ بھی کروانی چاہیے۔‘
گلگت بلتستان اور پُر خطر سڑکیں
شبیر میر گلگت بلتستان میں مقیم صحافی ہیں اور وہاں کی سیاحت کے حوالے سے کئی مضامین لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گلگت بلتستان کی سڑکیں پُر خطر ہیں جبکہ نیچے دریائے سندھ بہتا ہے اور کسی قسم کی غلطی ایک بڑے حادثے کی وجہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’زیادہ تر سیاح میدانی علاقوں سے آکر یہاں بلندی اور پُر خطر سڑکوں پر میدانی علاقوں کی سڑکوں کی طرح ڈرائیونگ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔‘
شبیر میر کے مطابق: ’یہاں سڑکوں پر موڑ، بلندی، لینڈ سلائیڈنگ اور حفاظتی بلاک نہ ہونے کی وجہ سے خطرہ موجود ہوتا ہے تو مقامی افراد یا پولیس سے پہلے معلومات حاصل کر لینی چاہییں کہ کس وقت سفر محفوظ ہے۔‘
گاڑی کے حوالے سے شبیر میر نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی گاڑی آسکتی ہے لیکن گاڑی کی فٹنس ضرروری ہے جبکہ بعض پہاڑی علاقوں میں جانے کے لیے فور بائی فور گاڑی کی ضرورت پڑتی ہے۔
بارش اور ممکنہ سیلاب میں سفر
محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا نے حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر سیاحوں کو بارش کے دوران سفر سے گریز کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ہدایات کے مطابق بارش کے دوران سڑک پر پھسلن ہوتی ہے جبکہ لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے، لہذا روانگی سے قبل موسم کی صورت حال سے آگاہی بے حد ضروری ہے۔
اسی طرح محکمہ سیاحت کے مطابق ممکنہ سیلاب کے خطرے سے دوچار علاقوں کے سفر سے اجتناب کرنا چاہیے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال کی صورت میں سیاحتی ہیلپ لائن 1422 پر فوری رابطہ کرنا چاہیے۔