انڈیا سے لاہور پر قبضے کی جھوٹی خبر والے چینلز کو بند کرنے کا مطالبہ

انڈین اخبار ’ان دنوں‘ کے ایڈیٹر حبیب اختر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جن چینلز نے لاہور پر قبضے کرنے کی جھوٹی خبر دی انہیں بند کرنا چاہیے، نہ کہ ان اداروں کو جو سنجیدہ خبریں چلارہے تھے۔‘

انڈیا پاکستان کشیدگی کے دوران انڈیا میں سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی بندش پر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایک جمہوری ملک میں میڈیا پر ایسی بندشیں شرمندگی کا باعث ہیں۔

پہلگام حملوں کے بعد انڈیا کی جانب سے سات مئی کو پاکستان میں کیے گئے ’آپریشن سندور‘ کے بعد دونوں ممالک مابین شدید کشیدگی شروع ہوئی، جو جنگ تک پہنچ گئی۔

اسی دوران انڈیا میں میں متعدد اداروں اور ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا گیا تھا، جن میں انڈیا کے معروف ادارے جیسے دی وائر، آؤٹ لک، 4PM نیوز، مکتوب اور دیگر اداروں کے اکاونٹ شامل تھے۔

انڈین حکام نے اسی وقت چینی سرکاری میڈیا اور ترکی کے ٹی آر ٹی ورلڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سمیت پاکستان کے سیکڑوں اکاونٹس کو بھی بلاک کر دیا اور ان پر پاکستانی پروپیگنڈا اور غلط معلومات پھیلانے کا الزام عائد کیا۔

انڈین حکومت کی جانب سے اپنے ہی ملک میں نیوز اور تبصروں کے اکاونٹس بند کرنے پرصحافتی ادارے اور صحافی برہم ہیں۔

انڈیا کی بڑی صحافتی تنظیم پریس کلب آف انڈیا نے حکومت کے ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملک بھر کے صحافیوں سے آزادی صحافت کے دفاع میں متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔

تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزارتِ الیکٹرانکس و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نمائندوں سے ملاقات کرے گی تاکہ اپنا احتجاج باقاعدہ طور پر ریکارڈ کروا سکے۔

پریس کلب آف انڈیا کے صدر گوتم لہری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طریقے سے انڈین اکاؤنٹس کو بند کیا گیا، وہ قابل اعتراض ہے۔

’جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ اچانک سے سوشل میڈیا پر کئی نیوز اداروں کو بند کر دیا گیا ہے، تو ہم نے فوری طور پر دیگر صحافتی اداروں کے ساتھ مل کر اس کے خلاف مذمتی بیان جاری کیا۔‘

گوتم لہری نے بتایا کہ ’اگر حکومت کو کسی مضمون یا خبر پر اعتراض ہے، تو اس پر جواب مانگا جا سکتا ہے، یا اس کا لنک ڈاون کیا جاسکتا ہے، پورا اکاونٹ بند کرنا جمہوری اخلاقیات کے بالکل خلاف ہے۔‘

گوتم لہری نے غیر ملکی اداروں کے اکاونٹس بلاک کرنے پر ردعمل دینے سے انکار کر دیا۔

22 اپریل 2025 کو کشمیر کے علاقے پہلگام میں مسلح گروپ کے حملے کے بعد، انڈین حکومت کے مطابق انہوں نے قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے تحفظ کے لیے متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹوئٹر) پر آٹھ ہزار سے زائد اکاؤنٹس بلاک کیے گئے، جن میں پاکستانی یوٹیوب چینلز ڈان نیوز، سما ٹی وی، اے آر وائے نیوز اور جیو نیوز بھی شامل ہیں۔

متعدد پاکستانی اداکاروں اور فنکاروں کے انسٹاگرام اکاؤنٹس بھی انڈیا میں بلاک کر دیے گئے، جن میں مہوش حیات، ہانیہ عامر، علی ظفر، فواد خان، عاطف اسلم اور دیگر کے اکاؤنٹس شامل ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ایکس اکاؤنٹس اور پاکستانی کرکٹرز بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، اور محمد رضوان کے انسٹاگرام اکاؤنٹس بھی انڈیا میں معطل کیے گئے۔

انڈین حکومت نے ان اقدامات کو قومی سلامتی، عوامی نظم و ضبط، اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضروری قرار دیا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ یہ اکاؤنٹس انڈیا کے خلاف اشتعال انگیز، فرقہ وارانہ حساس، اور گمراہ کن مواد پھیلا رہے تھے، جو عوامی نظم و ضبط اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا تھا۔

انڈین اخبار ’ان دنوں‘ کے ایڈیٹر حبیب اختر کا کہنا ہے کہ ’اگر انڈیا میں غیرملکیوں کے اکاونٹس روکے جاتے ہیں تو سمجھ میں بھی آتا ہے کہ پروپیگنڈہ کا اندیشہ ہے، مگر خود یہاں کے اکاونٹس کو بند کرنے سے بڑی شرمندگی ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جن چینلز نے فرضی خبریں چلائیں، لاہور پر حملہ کرنے کی جھوٹی خبر دی، انہیں بند کرنا چاہیے، نہ کہ ان اداروں کو جو سنجیدہ خبریں چلارہے تھے۔‘

حبیب اختر نے اسے انڈیا میں ڈیجیٹل میڈیا کی سینسرشپ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک جمہوری ملک کے لیے اس طرح میڈیا پر حملہ کرنا بہت ہی گھٹیا ہے۔

صحافی روبا انصاری کے مطابق ’جیسے ہی دونوں ممالک کے درمیان میزائل اور ڈرون حملے شروع ہوئے، سوشل میڈیا خبروں کا بنیادی ذریعہ بن گیا تھا، لیکن اچانک سے بڑی تعداد میں اکاونٹس بلاک ہونے شروع ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اب دھیرے دھیرے کئی انڈین اکاؤنٹس واپس آرہے ہیں، وہ بھی اس وقت جب متاثرہ ادارے عدالت میں عرضی ڈالنے کی تیاری کر رہے تھے۔‘

انڈیا میں سوشل میڈیا اکاؤئنٹس کو بلاک کرنے کے احکامات عام طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے سیکشن 69 اے کے تحت جاری کیے جاتے ہیں، ناقدین اس قانون پر اعتراضات تو کم کرتے ہیں مگر اس کے ناجائز استعمال پر ان کی جانب سے تنقید بھی کی جاتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا