حقوق کی جنگ لڑنے والے، طاقتوروں سے جواب طلب کرنے والے، تنقید کے تیر اور تجزیے کے نشتر چلانے والے سیاسی کارکن تو پاکستان میں ہمیشہ سے تھے لیکن اس بار پاکستان انڈیا جنگ کے دوران جو دیکھا، اسے سیاست یا سیاسی ایکٹوزم کسی صورت نہیں کہہ سکتے۔
بعض ناراض ہم وطن تجزیہ نگاری اور سیاسی رائے کی آڑ میں بادل نخواستہ پاکستان کی تباہی کی امیدیں باندھے بیٹھے تھے۔
عرض یہ ہے کہ حقوق کی جنگ اور دھرتی ماں سے جنگ دو بہت ہی مختلف چیزیں ہیں اور سیاسی طور پہ باشعور، حقوق کے طلب گار پاکستانی اس فرق کو سمجھتے ہیں، لیکن پاکستان کے سیاسی دائرے میں ایک گروہ ایسی ’کالی بھیڑوں‘ کا بھی پیدا ہو گیا ہے، جن کا ننھا مُنا مقیاس ذہانت انہیں تول کر بولنے اور سوچنے سمجھنے کی مشقت سے بچاتا ہے۔
یہ گروہ صحیح کو غلط سے الگ کرنے کی صلاحیت، وقت کی نزاکت، معاملہ فہمی الغرض اپنے پرائے کی تمیز ہی بھول گیا ہے۔
دل جلوں کے اس گروہ نے سیاسی محاذ، الیکشن چوری، ایک جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش، سیاست دانوں کا ہتھیار ڈالنا، ہتھیار ڈالنے والوں کا سیاست کرنا، نئی تعیناتی، پرانوں کی گرفتاریاں، آئی ایم ایف سے قرضے، روس یوکرین کی جنگ، یعنی نیلے آسمان تلے جتنے مسائل ہیں سب کا ملبہ ریاست، حکومت اور افواج پاکستان پہ ڈالنا شروع کر دیا تھا۔
اس گروہ میں سیاست دان، صحافی، سابق فوجی، سیاسی کارکن، غرض ہر طبقے سے افراد شامل ہیں، جن میں بعض کو پاکستان کے موجودہ نظام سے نظریاتی اختلاف ہے، بعض کو ذاتی اختلاف ہے اور بعض کو محض اس لیے اختلاف ہے کیونکہ یوٹیوب انڈسٹری کی رو سے اختلاف میں برکت ہے۔
اگرچہ دل جلوں کے سیاسی مطالبات کچھ ایسے بھی غلط نہیں لیکن راستہ سیاست کی بجائے ریاست کی دشمنی کا چنا گیا۔ ان دل جلوں کی سیاسی جدوجہد نے اندرونی انتشار کا روپ دھار لیا۔
اب بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی ہے کہ اپنے ایک پاؤ گوشت کی خاطر پورا اونٹ قربان کرنے پہ تُلے ہیں۔
کالی بھیڑوں کا یہ گروہ نفرت میں اتنا اندھا ہو گیا ہے کہ اپنے ہم وطنوں کو جنگ کی آگ میں جھلسانے پہ آمادہ ہے۔ یہ اپنے گھر کی راکھ کو دشمن کی مانگ کا سندور بنانے پہ تُلے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی یا عسکری فیصلوں پہ نقاد بن کر اپنی ماہرانہ رائے دینا قوم کی خدمت ہے لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پہ پیغام لکھنا کہ پاکستان دشمن کے ایک ہی وار سے تباہ و برباد ہوگیا؟ یہ آپ کی کوئی چھپی ہوئی خواہش تو ہو سکتی ہے تجزیہ نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مخالفین کا ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنانا، بلکہ شعلہ بیانی میں انہیں ’شیطان کا ایجنٹ‘ قرار دینا معمول کی سیاسی نوک جھونک کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی کوئی سیاست دان گزرا ہو جس نے فوج کے سیاسی کردار پہ احتجاج نہ کیا ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کے سارے ’مسائل کی جڑ‘ کہنا، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، اس پہ شاعر ترانے لکھ چکے، مصنف صفحے کالے کر چکے، لیکن اس نومولود گروہ نے جس انداز میں وطن پاکستان کو نفرت کا نشانہ بنایا، اس کو کیا نام دیں؟
اختلاف و احتجاج کرنے والے سیاست دان جو نظام میں ہی رہ کر اپنی سی کوشش کرتے ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ اپنے لوگوں کو مکمل حقوق دلانے کا سفر چند ماہ یا کسی ایک حکومت کے فیصلوں کے مرہون منت نہیں ہوتا۔ انہیں علم ہے کہ حقوق کی جدوجہد کا مقصد نظام کو تہہ و بالا کرنا نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی ہوتا ہے۔
یہ رہنما کبھی مارچ نکالتے ہیں، کبھی سڑکیں جام کر دیتے ہیں، کبھی چوکیوں کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور اکثر اپنے سخت بیانات سے اسلام آباد کی مرکزی حکومت اور پاور اسٹیبلشمنٹ کو شرم دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اختلاف اور احتجاج کوئی نئی بات نہیں، یہ سب جمہوری رویوں کے زمرے میں آتا ہے، جس پہ اصولاً ریاست کو کان دھرنے چاہییں لیکن بہرحال پاکستانی ریاست ہمیشہ آئیڈیل جمہوری رویہ نہیں اپناتی۔
قوموں کی تاریخ اندرونی خلفشار، سیاسی ریشہ دوانیوں، آپسی اختلافات، حقوق اور وسائل کی کھنیچا تانی سے پُر ہوتی ہے۔ قومیں ان مسائل سے صرف سیاست اور مذاکرات سے نمٹتی ہیں۔
حالیہ پاکستان انڈیا جنگ کے دوران جن افراد نے کھل کر وطن پاکستان کے خلاف بیان بازی کی، جب پورا ملک یکجہتی کا طالب تھا، تب ان افراد نے مایوسی پھیلانے کی کوشش کی، جب اپنی مٹی سے اپنی وفا نبھانے کا وقت آیا، تب ان افراد نے اپنی سیاست چمکائی۔
ان افراد کے خلاف بعض شدت پسند جمہوریوں نے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ہفتے بھر کی جنگ سے برسوں کی دھند چھٹ گئی ہے، اس لیے نفرت کے ان پرچارک افراد کو عوام کے فیصلے پہ چھوڑا جائے۔
ان کی نفرت کا اظہار بھی دراصل آزادی اظہار رائے کا سائیڈ افیکٹ ہے، جسے جمہوریت کی خاطر جھیلنا پڑتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔