پاکستان، انڈیا میں سیزفائر برقرار رکھنے کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں: برطانیہ

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی کے مطابق: ’یہ دو ہمسایہ ممالک ہیں جن کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن حالیہ عرصے میں یہ ایک دوسرے سے مشکل سے ہی بات کر پائے ہیں، اور ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کشیدگی دوبارہ نہ بڑھے اور جنگ بندی قائم رہے۔‘

16 مئی 2025 کی اس تصویر میں برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی کی اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے ملاقات کا منظر (وزارت خارجہ ایکس اکاؤنٹ)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی روز کی کشیدگی اور فوجی جھڑپوں کے بعد فائر بندی کی صورت حال پر انڈپینڈنٹ اردو کی 17 مئی 2025 کی اپ ڈیٹس


دن 12 بج کر 30 منٹ

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے ہفتے کو کہا ہے کہ ان کا ملک انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیزفائر کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ’اعتماد سازی کے اقدامات‘ اور بات چیت بھی ہو۔

پاکستان کہہ چکا ہے کہ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور دیگر ممالک نے بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ہفتے دہائیوں بعد ہونے والی شدید ترین کشیدگی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس سیزفائر کے لیے تیز رفتار سفارتی کوشش 10 مئی کو کامیاب ہوئی، لیکن سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سیزفائر اب بھی نازک حالت میں ہے۔

وزیر خارجہ ڈیوڈ لامی نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے دو روزہ دورے کے اختتام پر خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا: ’ہم امریکہ کے ساتھ مل کر کام جاری رکھیں گے تاکہ ایک پائیدار جنگ بندی کو یقینی بنایا جا سکے، تاکہ مذاکرات ہوں اور پاکستان اور انڈیا کے ساتھ مل کر یہ طے کیا جا سکے کہ دونوں فریقوں کے درمیان اعتماد اور اعتماد سازی کے اقدامات کس طرح ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔‘

پاکستان اور انڈیا نے کئی ہفتے تک جاری رہنے والی کشیدگی کے دوران ایک دوسرے کی حدود میں میزائل فائر کیے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر جان لیوا حملے کے بعد شروع ہوئی۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کیا تاہم پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں دونوں فریق سیزفائر پر راضی ہوگئے۔

ڈیوڈ لامی کا کہنا تھا: ’یہ دو ہمسایہ ممالک ہیں جن کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن حالیہ عرصے میں یہ ایک دوسرے سے مشکل سے ہی بات کر پائے ہیں، اور ہم یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کشیدگی دوبارہ نہ بڑھے اور جنگ بندی قائم رہے۔‘

جب انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی، جو پاکستان کی پانی کی فراہمی کو متاثر کر سکتی ہے، کے بارے میں سوال کیا گیا تو ڈیوڈ لامی نے کہا: ’ہم تمام فریقوں پر زور دیں گے کہ وہ معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔‘

 گذشتہ ماہ نئی دہلی نے کہا تھا کہ اس نے 1960 کے معاہدے میں اپنی شمولیت کو ’معطل‘ کر دیا ہے۔ یہ معاہدہ دریائے سندھ کے پانی کے استعمال سے متعلق ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر اس اقدام سے زرعی لحاظ سے انحصار کرنے والے ملک کی پانی تک رسائی متاثر ہوئی تو وہ اسے جنگی اقدام تصور کرے گا۔

ڈیوڈ لامی نے مزید کہا کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ ’دہشت گردی‘ کے خلاف کام جاری رکھے گا۔ یہ اس ملک اور اس کے عوام اور یقیناً پورے خطے کے لیے بہت بڑی مصیبت ہے۔‘


صبح نو بج کر 15 منٹ

پاکستان، انڈیا جوہری جنگ کے قریب تھے، لیکن اب سب خوش ہیں: ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا کی دو جوہری طاقتوں کے درمیان جاری کشیدگی اور اپنی ثالثی میں ہونے والے سیزفائر کا تذکرہ کرتے ہوئے جمعے کو کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا جوہری جنگ کے بہت قریب پہنچ چکے تھے، لیکن ’اب سب خوش ہیں۔‘

امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کے میزبان بریٹ بائیر نے جمعے کو ایک انٹرویو میں ٹرمپ سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان سیز فائر سے متعلق سوال کیا، جس پر امریکی صدر نے اسے اپنی ’سب سے بڑی کامیابی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ دونوں بڑی جوہری طاقتیں ہیں اور دونوں ناراض تھے۔۔ اور اگلا مرحلہ آپ دیکھیں کہ کہاں جا رہا تھا، ادلے کا بدلہ۔۔ تنازع مزید گہرا ہوتا جا رہا تھا۔‘

جوہری یا نیوکلیئر جنگ کے لیے ’این ورڈ‘ کا استعمال کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’اگلا مرحلہ جوہری جنگ کا تھا۔۔۔ یہ ایک بہت برا لفظ ہے۔۔۔ اور یہ سب سے بری چیز ہے جو وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ بہت قریب تھے، نفرت بہت زیادہ تھی۔ اور پھر میں نے کہا کہ ہم تجارت پر بات کر سکتے ہیں، ہم بہت زیادہ تجارت کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کی امریکی سے تجارت کی خواہش کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں تجارت کو حساب برابر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہوں، امن قائم کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہوں۔‘

انٹرویو کے دوران امریکی صدر نے پاکستان اور انڈیا سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’پاکستان کے ساتھ شاندار گفتگو ہوئی، ہم انہیں بھلا نہیں سکتے۔۔ اور انڈیا کے ساتھ بھی میری بات بہت واضح تھی۔ پاکستان سے بھی میں نے تجارت پر بات کی۔ وہ سب تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ذہین لوگ ہیں۔ وہ حیرت انگیز مصنوعات بناتے ہیں اور ہم ان کے ساتھ زیادہ تجارت نہیں کرتے۔ آپ یقین نہیں کریں گے، میرے بہت سے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔‘

بقول ٹرمپ، پاکستان اور انڈیا میں ’جوہری جنگ بہت قریب پہنچ چکی تھی لیکن اب سب خوش ہیں۔‘

گفتگو کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ ’انڈیا نے بہت زیادہ ٹیرف عائد کر رہے ہیں، انہوں نے بزنس کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے، لیکن آپ کو پتہ ہے کہ وہ امریکہ کے لیے ٹیرف میں 100 فیصد کمی کو تیار ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’مجھے کوئی جلدی ہے، ہم سے ہر کوئی ڈیل کرنا چاہتا ہے۔۔۔ لیکن میں ہر کسی کے ساتھ ڈیل نہیں کروں گا، میں حد قائم کروں گا۔۔۔ کیونکہ آپ بہت زیادہ لوگوں سے نہیں مل سکتے۔‘

انڈیا نے 22 اپریل 2025 کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے حملے کا الزام اسلام آباد پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے تھے۔

پاکستان پہلگام حملے میں ملوث ہونے کے انڈین الزام کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان میں انڈیا کے حملوں کے بعد، دونوں فریقوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد ایک دوسرے کے علاقوں میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے، جن میں بنیادی طور پر فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پاکستان نے انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت کئی طیارے مار گرائے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس حریفوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے علاقائی امن کو خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں عالمی رہنماؤں نے دونوں کو تحمل سے کام کرنے کی اپیل کی اور بالآخر 10 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں دونوں فریق سیزفائر پر راضی ہوگئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ