امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کبھی فخر سے خود کو ایک ’سٹیبل جنیئس‘ کہا تھا۔ خیر، یہ بات کبھی زیادہ سچ محسوس نہیں ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہی نہایت غیر متوازن اور غیر مستقل مزاج شخصیت کے حامل رہے ہیں۔
ایک ایسی صفت جسے ان کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کے حمایتی کسی روحانی بصیرت کی علامت سمجھ کر ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں، جیسے وہ کوئی جدید دور کے یسوع مسیح ہوں، یا زیادہ ممکنہ طور پر نارنجی رنگت والے چارلس مینسن۔
کسی بھی زاویے طرح دیکھیں، ٹرمپ آج پہلے سے زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں۔
چند دن پہلے ہی انہوں نے ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای کو کھلے عام سوشل میڈیا پر للکارا۔ 86 سالہ سخت گیر خامنہ ای کے بارے میں ٹرمپ نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ یہ نام نہاد ’سپریم لیڈر‘ کہاں چھپا بیٹھا ہے۔ وہ ایک آسان ہدف ہے، لیکن فی الحال ہم اسے ختم (مارنے) نہیں کرنے جا رہے، کم از کم ابھی نہیں۔‘
ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنی پوری زندگی نیویارک کے جرائم پیشہ رئیل سٹیٹ مافیا میں گزاری ہو، ہے ناں؟
پھر ہفتے کے اختتام پر جب انہوں نے ایران کے کچھ پہاڑی علاقوں پر بمباری کی (ماہرین کہتے ہیں ایرانیوں نے ہوشیاری سے اپنا قیمتی افزودہ یورینیم پہلے ہی وہاں سے ہٹا لیا تھا) تو ٹرمپ کے قریبی ساتھیوں نے دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ یہ کارروائی صرف ایٹمی پروگرام کے خلاف تھی، نہ کہ ایران کے حکمران خامنہ ای کے خلاف۔
جے ڈی وینس، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مداخلت کے حق میں نہیں تھے، بولے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ ’رجیم چینج‘ نہیں چاہتی۔ مارکو روبیو، جو درپردہ جارج بش طرز کے سخت گیر نظریات رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے باس (ٹرمپ) کو خوش کرنے کے لیے وہی بیانیہ اپنایا جو سرکاری طور پر ’آپریشن مڈ نائٹ ہیمر‘ کے بارے میں پیش کیا گیا یعنی ’یہ ایران پر حملہ نہیں تھا، نہ ایرانی عوام پر اور نہ ہی یہ حکومت کو گرانے کی کوشش تھی۔‘
لیکن اب کچھ اور ہی لگ رہا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ذاتی پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنی مخصوص دھمکی آمیز اور شوخ انداز میں یہ بات پھر چھیڑ دی کہ ’رجیم چینج‘ کہنا سیاسی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا لیکن اگر موجودہ ایرانی حکومت ایران کو دوبارہ عظیم نہیں بنا سکتی تو حکومت کی تبدیلی کیوں نہ ہو؟ ’میک ایران گریٹ اگین۔‘
ان کے حمایتی کہتے ہیں کہ وہ صرف مذاق کر رہے تھے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی کیسے جان سکتا ہے کہ ٹرمپ کو کب سنجیدہ لینا ہے۔ ہمیشہ؟ یا کبھی نہیں؟
شاید ٹرمپ خواب دیکھتے ہیں کہ ایرانی عوام اٹھ کھڑے ہوں اور ایک نئی، کثیرالجہتی جمہوریت قائم کریں۔ ایک ایسی جگہ جہاں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں، جہاں ہارنے والے شکست تسلیم کریں، پرامن طریقے سے اقتدار کی منتقلی ہو، کوئی ہارنے والا ہجوم کو پارلیمنٹ پر حملہ کرنے پر نہ اکساتا ہو اور پارلیمانی حکام کا استعمال کرتے ہوئے خود کو پولیس اور افسران کے خلاف استعمال نہ کرتا ہو۔
ایرانی، خاص طور پر، امریکہ یا اسرائیل کے اس طرح کے بیانات سے متاثر نہیں ہوتے اور اگر وہ سی آئی اے اور ایم آئی فائیو کو لے کر شکوک میں مبتلا ہیں، تو اس کی وجوہات بھی ہیں۔ ماضی میں بارہا ’شیطان اکبر‘ امریکہ اور اس سے پہلے ’شیطان اصغر‘ برطانیہ نے ایران کے معاملات میں مداخلت کی تھی، دو شاہ اور ایک وزیراعظم ڈاکٹر محمد مصدق کا تختہ الٹا، جو ایران کی تیل کی دولت کو ’برٹش پیٹرولیم‘ سے دور لے جانا چاہتے تھے۔
استعماری طاقتوں کی طرف سے کی گئی یہ بغاوتیں وقتی طور پر کامیاب رہیں لیکن مستقل نہیں۔ ان ہی پالیسیوں نے 1979 کے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب بھی کوئی امریکی صدر رجیم چینج کی بات کرتا ہے تو سب کو پریشان ہونا چاہیے اور سچ تو یہ ہے کہ ٹرمپ اس پالیسی کے موجد نہیں اور یہ پالیسی اکثر ناکام ہی رہی ہے۔
تاریخی طور پر جس بھی رہنما سے امریکہ سب سے زیادہ جان چھڑانا چاہتا تھا، وہ فیدل کاسترو تھا جو 1959 سے لے کر 2016 میں اپنی موت (قدرتی وجوہات) تک فلوریڈا کے ساحل سے 90 میل دور ایک بڑے روسی طیارہ بردار بحری جہاز کی بدولت اقتدار پر قائم رہے۔ سی آئی اے نے انہیں قتل کرنے کے کئی منصوبے بنائے جن میں مشہور زمانہ ’دھماکہ خیز سگار‘ بھی شامل ہے۔ یہ منصوبہ اتنا بچگانہ اور غیر سنجیدہ لگتا ہے کہ جیسے کسی نے مذاقیہ کتاب سے یہ آئیڈیا چرایا ہو۔
ایک زیادہ سنجیدہ لیکن پھر بھی ناکام کوشش 1961 میں کی گئی جب امریکہ کی تربیت یافتہ باغی فورسز کی مدد سے کیوبا پر حملہ اور بغاوت کروانے کی کوشش کی گئی۔ مگر جب یہ باغی ’بے آف پگز‘ کے مقام پر پھنس گئے تو یہ پوری کارروائی بری طرح ناکام ہو گئی۔
یہ نہ تو پہلی بار تھا کہ امریکیوں نے کاسترو کو ہٹانے کی کوشش کی اور نہ ہی آخری بار۔ مگر یہ ناکام سازش کیوبن لیڈر کو مزید مقبول بنانے کا سبب بنی اور کینیڈی انتظامیہ کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جسے یہ منصوبہ صدر آئزن ہاور کی ٹیم سے ورثے میں ملا تھا یعنی حکومتوں کی تبدیلی ہمیشہ سے دونوں امریکی سیاسی جماعتوں کی پسندیدہ حکمت عملی رہی ہے۔
کینیڈی نے کچھ سال بعد کم از کم جنوبی ویتنام پر حکمرانی کرنے والے دیئم برادران کے قتل پر خاموش رضامندی ظاہر کی اور ان کی جگہ نوین وان تھیو نامی شخص کو لایا گیا، جو امریکہ کا تو پسندیدہ تھا مگر نہ زیادہ جمہوری تھا اور نہ ہی اپنے ملک کو کمیونسٹوں کے قبضے سے بچانے میں مؤثر اور جب امریکہ کو یہ جنگ ہارنی پڑی تو یہ اس کے لیے اور بھی بڑی ذلت بن گئی تھی۔
انڈو۔چائنہ تنازعے میں حکومت کی تبدیلی کا ایک اور تماشہ کمبوڈیا میں لگا گیا جہاں امریکیوں نے خوش مزاج ولی عہد پرنس سیہانوک کو ہٹانے میں مدد دی اور ان کی جگہ ایک امریکہ نواز جنرل کو لایا گیا لیکن یہ جنرل بھی زیادہ دیر نہیں ٹک سکا اور جب خمیر رُوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو یہاں بنائی گئیں قتل گاہیں لاکھوں کمبوڈینز کی لاشوں سے بھر گئیں۔
سرد جنگ کے دور میں سی آئی اے کی ایسی ہی تباہ کن کارروائیوں کی وجہ سے امریکی کانگریس نے 1970 کی دہائی میں اس طرح کی خفیہ مداخلت کو روکنے کے لیے وار پاورز ایکٹ جیسے قوانین بنائے تاکہ صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر جنگ شروع کرنے سے روکا جا سکے لیکن اس نگرانی کا سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور بعد میں امریکہ کے اشارے پر گریناڈا (1983) اور نکاراگوا (1984) میں چھوٹے پیمانے کی بغاوتیں ہوئیں۔
حکومت کی تبدیلی کے میدان میں سب سے بڑی حماقت یقیناً عراق میں کی گئی۔ لوگ اکثر بش اور بلیئر کو صرف ایک ظالم حکومت گرانے والے سمجھ کر تنقید کرتے ہیں، مگر درحقیقت ان کے نزدیک حکومت کی تبدیلی کا مطلب صرف شخص یا حکومت کو ہٹانا نہیں تھا، بلکہ وہ پالیسی، رویے یا بین الاقوامی تعاون میں تبدیلی جیسے پہلو بھی شامل کرتے تھے۔
تو اگر صدام حسین واقعی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے دستبردار ہو جاتے (نہ کہ ان کا جھوٹا دعویٰ کر کے دنیا کو دھمکاتے) اور اقوام متحدہ کو مکمل معائنہ کرنے کی اجازت دے دیتے تو ممکن ہے وہ اب بھی برسراقتدار ہوتے اگرچہ یہ امکان کم ہی تھا۔
لیکن دوسرا راستہ، جو روز بروز واضح ہوتا گیا، یہی تھا کہ انہیں طاقت کے زور پر ہٹایا جائے۔ یہ اقدام بظاہر خطے کے استحکام کو لاحق خطرے کو ختم کرنے کے لیے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ نئے خطرات پیدا ہو گئے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں، صدام کے بعد جب اسلامک سٹیٹ (داعش) منظر پر آئی تو پورا مشرق وسطیٰ الٹ پلٹ ہو گیا اور مغرب کے لیے حالات اور بھی بگڑ گئے۔
یہی حال قذافی کے بعد کی لیبیا کا ہے اور افغانستان پر امریکی حملے کے بعد کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔
یہ سب کچھ تھکا دینے والی حد تک جانا پہچانا لگتا ہے، ہے ناں؟ امریکی اپنی ناپسندیدہ حکومت کو گرا دیتے ہیں اور پھر کسی نہ کسی طرح حالات کو پہلے سے بھی بدتر بنا دیتے ہیں۔ بالکل ویسا ہی جیسے انہوں نے پچھلے سال دوبارہ ٹرمپ کو منتخب کر کے کیا۔
© The Independent