ملالہ یوسفزئی کی نئی کتاب ’فائنڈنگ ہر وے‘ ان کے یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں گزرے سالوں اور ایک بالغ کے طور پر اپنی شناخت ڈھونڈنے کے بارے میں ہے۔
ملالہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ آکسفورڈ میں انہوں نے سب سے پہلا کام ڈھیروں کلبز اور سوسائٹیز میں رجسٹر ہونے کا کیا۔ وہ ان کلبز اور سوسائٹیز کی ہر سرگرمی میں ایسے جاتی تھیں جیسے وہ ان پر فرض ہوں۔ ان کی وہ سرگرمیاں اس قدر بڑھیں کہ ان سے اپنی پڑھائی پر توجہ دینا مشکل ہو گیا۔
کسی بھی دوسرے طالب علم کی طرح وہ بھی یونیورسٹی میں دوست بنانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنا سارا زور نئے دوست بنانے پر رکھا۔ وہ ان کے ساتھ نت نئے منصوبے بناتی تھیں، رات گے تک باتیں کرتی تھیں اور اس دوران وہ اکثر ہی پڑھنا بھول جاتی تھیں یا پڑھتے ہوئے کچھ سمجھ نہیں پاتی تھیں اور پھر سے کتابیں بند کر کے کسی دوست کی طرف چلی جاتی تھیں۔
وہ اپنا کام آخری وقت تک لٹکا کر رکھتی تھیں۔ ان کے مضامین ان کے اساتذہ کو پسند نہیں آتے تھے۔
ان کے اساتذہ انہیں بار بار خبردار کر رہے تھے۔ ان کی دوستوں نے بھی انہیں پڑھائی پر توجہ دینے کا کہا۔ کچھ نے پڑھائی میں مدد کرنے کی بھی پیشکش کی۔ تاہم، ملالہ اس وقت پڑھائی سے زیادہ اپنی دیگر مصروفیات میں دلچسپی رکھتی تھیں۔
اس وقت تک وہ ’ملالہ فنڈ‘ نامی ادارہ بھی بنا چکی تھیں۔ انہیں اس کا کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ وہ ملالہ فنڈ کے لیے دنیا بھر کا سفر کرتی تھیں، کبھی کبھار انہیں ہفتے میں تین چار ممالک کا سفر کرنا پڑتا تھا۔ اس سے بھی ان کی پڑھائی کا کافی حرج ہوا۔
ملالہ پڑھائی میں اپنی خراب کارکردگی پر کافی افسردہ بھی رہتی تھیں۔ تاہم، کسی بھی دوسرے طالب علم کی طرح وہ اپنی پڑھائی کے حوالے سے بس پریشان ہی رہتی تھیں۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے انہوں نے اپنے آخری سال سے پہلے کوئی خاص کام نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب انہیں بار بار ان کی ٹیوٹر کی طرف سے پڑھائی کرنے کا کہا گیا تو ملالہ نے ان سے اپنے گھر والوں اور ملالہ فنڈ کے نام ایک خط لکھنے کا کہا۔ اس خط میں کہا گیا کہ ملالہ کو گھر میں پڑھائی کا ماحول ملنا ضروری ہے اور ملالہ فنڈ کو بھی ان کی سرگرمیاں کم کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنا وقت پڑھائی کو دے سکیں۔
کسی بھی دوسرے طالب علم کی طرح ملالہ نے بھی صرف آخری سال میں اپنی پڑھائی پر توجہ دی اور دن رات پڑھ کر اپنا گریڈ بہتر کیا۔
ملالہ کی کتاب پڑھ کر میری ایک کولیگ اور دوست نے افسوس سے کہا کہ ملالہ کو اتنے تاریخی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا موقع ملا اور اس نے وہاں کچھ سیکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اس کا زیادہ زور صرف دوست بنانے اور غیر نصابی و تفریحی سرگرمیوں میں رہا۔
ملالہ کی طرح بہت سے طالب علم یونیورسٹی آنے کے بعد پڑھائی کے علاوہ سب کچھ کرتے ہیں۔ پھر پریشان بھی ہوتے ہیں۔ اس پریشانی کا حل اسائنمنٹ کی ڈیڈ لائن سے امتحان سے ایک ہفتہ قبل ہی نکلتا ہے لیکن کہاں روز تھوڑا تھوڑا پڑھنا اور کہاں سب کچھ چند دنوں میں پڑھنا۔
آکسفورڈ کے برعکس پاکستان میں دنیا کی بہت سی جامعات کی طرح لیکچر نظام کی پیروی کی جاتی ہے۔ طالب علموں کے لیے سمسٹر کا آخری امتحان دینے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں لیکچر لینا ضروری ہے۔
پروفیسر کلاس میں طالب علموں کو مجبوری سے آتے ہوئے اور بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر حاضری لیکچر کے شروع میں ہی لگا لی جائے تو طالب علم حاضری لگتے ہی چپکے سے کھسکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر حاضری لیکچر کے اختتام پر لگائی جائے تو وہ بوریت بھرے چہروں کے ساتھ زبردستی وہاں بیٹھے ماحول کو افسردہ کرتے رہتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے دور میں بہت سے طلبہ کو لیکچر وقت کا زیاں لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی موضوع کو چیٹ بوٹ کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔ پروفیسر اور ہم جماعتوں کے ساتھ بات چیت کرنا اور خیالات کا تبادلہ کرنا انہیں ضروری نہیں لگتا۔
اکثر ان کی ضروری سرگرمیاں لیکچر کے وقت ہی ہوتی ہیں۔ سمسٹر ختم ہونے سے پہل جب انہیں اپنی حاضری کے کم ہونے کا احساس ہوتا ہے تو پروفیسر کے دفتر کے چکر کاٹنے لگتے ہیں، کبھی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے جا کر ملتے ہیں تو کبھی ڈین کا سر کھاتے ہیں۔
ان کے پاس بہانوں کا انبار ہوتا ہے۔ کبھی وہ بیمار تھے، کبھی کوئی شادی آ گئی، کبھی نئے گھر میں منتقل ہو رہے تھے، تو کبھی گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلے تو تھے مگر ٹریفک کی وجہ سے لیکچر لینے نہیں پہنچ سکے، ان کی نیت دیکھی جائے اور ان کی حاضری لگا دی جائے۔
ہمارے طلبہ کے پاس ملالہ جیسی زندگی نہیں ہے۔ ان کی ڈگری کے بعد ابا جی کے کاروبار یا اچھے رشتے کے علاوہ ان کا کوئی فنڈ انتظار نہیں کر رہا۔
ایک دفعہ ایک طالب علم نے کہا کہ اسے اپنی بہن کی شادی کے لیے ڈانس پریکٹس کرنی ہے جس کے لیے چند ہفتوں کی چھٹی درکار ہے۔ ان ہفتوں میں اس کی حاضری لگا دی جائے تاکہ وہ آخری امتحان دے سکے۔
پروفیسر ایک آدھ بار انہیں چھوٹ دے دیتے ہیں لیکن بار بار ایسا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے طلبہ کو ہر بار چھوٹ دینا ان طلبہ کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے جو ہر ہفتے لیکچر لینے آتے ہیں اور اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔
طلبہ کو سمجھنا چاہیے کہ ان کا بنیادی کام پڑھنا ہے۔ پڑھائی کے ساتھ دیگر سرگرمیاں بھی ہونی چاہیے لیکن ان کے لیے پڑھائی کا حرج نہیں کرنا چاہیے۔
ملالہ کی ایک لمبی جدوجہد ہے۔ وہ آکسفورڈ جانے سے پہلے ہی دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کے لیے ایک مضبوط آواز بن چکی تھیں، ان کا ادارہ ملالہ فنڈ قائم ہو چکا تھا اور پوری دنیا اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہاں تھی۔
اگرچہ ملالہ نے اپنی کتاب میں ایک پورا باب ڈگری کے دوران اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہونے پر بھی لکھا ہے۔ تاہم ان کے ساتھ پوری دنیا کو پتہ تھا کہ وہ اپنی پوری زندگی ملالہ فنڈ کے ذریعے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرتے ہوئے گزاریں گی۔ باب کے اختتام تک ملالہ کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا اور انہوں نے ڈگری کے بعد اپنی پوری توجہ ملالہ فنڈ پر مرکوز کر دی۔
ہمارے طلبہ کے پاس ویسی زندگی نہیں ہے۔ ان کی ڈگری کے بعد ابا جی کے کاروبار یا اچھے رشتے کے علاوہ ان کا کوئی فنڈ انتظار نہیں کر رہا۔ اگر وہ اپنی زندگی بہتر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی تعلیم پر توجہ دینی ہو گی، اچھا گریڈ لینا ہو گا اور اپنی مرضی کے مطابق آگے مواقع ڈھونڈنے ہوں گے۔
ورنہ اس دنیا میں بہت آئے اور بہت گئے۔ کچھ نے نام کمایا تو کچھ بس بےنام و نشان اس دنیا سے لوٹ گئے۔
