تصوف اور پاکستانی خواتین

تصوف سے شاید درگاہوں پہ خواتین کا اہم رشتہ ہے اسی لیے تو درگاہوں کے باہر، چوڑیوں کے سٹال لگے رہتے ہیں، ’ونگاں چڑھا لو کڑیوں میرے داتا دے دربار دیاں۔‘

14 اکتوبر 2024 کو کابل کے کارت سخی قبرستان میں سخی مزار کی مسجد کی تصویر (وکیل کوہسار/ اے ایف پی)

پچھلے دنوں ایک ٹاک پہ جانے کا اتفاق ہوا، جس کے عنوان نے میرے اندر دبے سوئے جاگے سے صوفی اور مجاور کو جگایا۔ ’ دی فیمیل صوفی ماسٹرز آف افغناستان‘ پاکستانی پروفیسر جناب ولید زیاد کی یہ آنے والی کتاب ہارورڈ یونیورسٹی نے سپانسر کی ہے۔

ولید زیاد ایک نوجوان سکالر ہیں جو انگریزی میں اس کتاب کے بارے میں بات کرتے نظر آئے۔ اس کتاب کا اہم کردار، افغان صوفی بزرگ خاتون، ’بی بی صاحبہ ‘ ہیں جن کی بدولت سندھ کے علاقے مٹیاری سے صوفی خواتین کا سلسلہ تھرپارکر کے ریگستان تک پہنچا اور عمر کوٹ کی ’دادی مٹھاں‘ اس کی ترسیل کرتی رہیں۔

مجھے اس ٹاک سے یہ دلچسپی ہوئی کہ اس وقت پاکستان میں تصوف اور خواتین کیسے ایک دوسرے سے گھلے ملے یا جڑے ہیں۔ میں نے چند سوالوں کے جواب کھوجنے کے لیے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کی جینڈر سٹڈیز کی استاد محترمہ فاطمہ احسان سے رابطہ کیا جو تصوف پر یقین رکھتی ہیں اور خدا کی تلاش میں ایک عرصے سے محو ہیں، ان کے بقول، ’تصوف اور اسلام جدا نہیں بلکہ یہ ایک ہی سوچ کے دو پہلو ہیں۔

چاہے بابا بلھے شاہ کی کافی ہو یا سچل سرمست کا کلام سب راستوں کا مرکز ایک ہی ہے، جس کا نام ہے ’تصوف‘۔ جب تک اس سے گزرا نہ جائے یہ بیان نہیں کیا جا سکتا یہ ایک ڈھکی چھپی حقیقت ہے۔ اسلام کا باطن پہلو تصوف کو مانا جائے گا‘۔

فاطمہ احسان کا ماننا تھا کہ اسلام کا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت ہے۔’ ہمارا اصل چہرہ تصوف کے نقوش سے مل کر ہی بنا ہے۔ اور یہ ہماری حقیقت کا ایک جز ہے اسے کل نہ مانا جائے۔ ہماری حقیقت بہت قدیم ہے اور آخر تک رہے گی‘۔

تصوف کا رجحان ہمارے ماحول سے نسبت رکھتا ہے۔ اگر ہماری طریقت میں اس کی ترغیب ہے تو ہم کہیں نہ کہیں ایک ایسے رابطے میں ہوتے ہیں جو ہماری روح کو جوڑتا بھی ہے اور جھنجوڑتا بھی ہے۔

اسی کشمکش کو سکالر امر سندھو اپنے انداز سے ٹٹول رہی ہیں اور وہ روحانی طور پہ اپنی ہی طریقت پہ رواں ہیں اس میں کوئی روحانی سلسلہ شامل نہیں۔

امر نے انڈیپینڈنٹ اردو  کو بتایا ، ’تصوف کی طلسمات نے مجھے دنیاوی قید سے آزاد کیا ہے اور میں اپنے آپ سے جڑی ہوں اور سماجی طور پر کسی قید میں نہیں۔  میں سادگی کے راستے پہ ہوں دنیاوی قیود سے فارغ محسوس کرتی ہوں۔ میں اس بات پہ یقین رکھتی ہوں کہ تصوف کو اپنے اندر تک لے کر آئیں۔ 

’اسے نظر نہ آنے میں بھی نظر آنا چاہیے۔  میں اسے خالصتا اپنے انداز میں بیان کر رہے ہوں، میں کسی تدریسی پیرائے میں نہ اسے سمجھنا چاہتی ہوں نہ ہی سمجھانا چاہتی ہوں۔ میں اس کھوج میں جن رستوں سے گزر رہی ہوں میں تصوف کو انہی پگڈنڈیوں میں تلاش کرتی ہوں‘۔

امر سندھو سمجھتی ہیں کہ ’جز کو کل‘ سے جڑنے میں سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی ضابطے ہیں اور صوفیوں پہ یہ الزام بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ ترک دنیا کر لیتے ہیں۔ جب آپ اپنی انا کی نفی کرتے ہیں تو پورے سماج کی نفی کرتے ہیں، امر سندھو کے بقول، ’تہذیب سے جڑنے کا مطلب، اپنی انا کا اظہار کرنا ہے اور تصوف آپ کو اسی اظہار سے بالا تر کرتا ہے‘۔

’سماج اور تصوف اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ جتنا ہم دنیا میں پھنسے رہیں گے خدا سے وہ قرب حاصل نہیں کر پائیں گے جو تصوف کی جڑ ہے‘۔

سندھ کو صوفیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے لیکن کیا خواتین صوفیوں کا بھی کوئی تذکرہ ہوا، کوئی درگاہ بنی؟ اس بارے میں تھرپارکر کی امریکہ میں برسوں سے مقیم سکالر محترمہ پروین ٹالپر نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ستر کی دہائی تک تھرپارکر میں سید بیبیاں ہوا کرتی تھیں جن کے خاندان میں کوئی مرد نہیں تھا لیکن مقامی خواتین اور وڈیروں کی بیبیاں ان کے پردے اور رتبے کی بہت عزت کیا کرتی تھیں اور ان کے پاس دعا لینے جایا کرتیں، یہ بیبیاں سخت پردہ نشین تھیں ان کے سال بھر کے اناج کا اہتمام بھی مقامی لوگ اور جاگیردار کیا کرتے تھے۔

’اب وقت بدلا ہے ان کے سیمنٹ کے گھر ہیں اور بیبیوں میں سے ایک کی شادی کے بعد خاندان میں بیٹوں کی پیدائش بھی ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ میں ماضی میں دیکھیں تو مسجدیں کم اور درگاہیں زیادہ تھیں۔ خواتین میں تصوف کا رجحان بھی اسی کے باعث تھا کیونکہ پہلے خواتین مسجد نہیں جایا کرتی تھیں، لیکن درگاہ پہ اپنے دل کا حال کہنے، مراقبہ کرنے، دھمال اور لنگر سبھی کے لیے جاتی تھیں۔

درگاہوں پہ جانا شاید خواتین کے لیے اپنی تلاش کا بھی ایک سفر ہو۔ اکثر اسلام آباد میں گولڑہ شریف یا بری سرکار جانے کا اتفاق ہو تومجھے خواتین کے جھرمٹ اکٹھے ان جگہوں پہ نظر آتے ہیں۔ کچھ کی گود میں بچے سوئے  ہوتے ہیں، کچھ لنگر کی لائن میں ہوتی ہیں تو کچھ سپارے لیے عقیدت سے پڑھ رہی ہوتی ہیں اور اللہ کے قرب کی متلاشی ہوتی ہیں۔ شاید یہ سبھی رستے تصوف سے جڑتے ہیں۔

تصوف سے شاید درگاہوں پہ خواتین کا اہم رشتہ ہے اسی لیے تو درگاہوں کے باہر، چوڑیوں کے سٹال لگے رہتے ہیں، ’ونگاں چڑھا لو کڑیوں میرے داتا دے دربار دیاں۔‘

اسسٹنٹ پروفیسر فاطمہ احسان جو تصوف کے سفر کی ایک طویل عرصے سے مسافر ہیں مزید کہتی ہیں کہ ’تصوف کا سفر باطنی سفر ہے اس راہ میں اپنے اندر جھانکنا لازمی ہے۔ اور خواتین اس راہ سے بآسانی جڑ سکتی ہیں۔ لیکن ہمارے کلچر میں خواتین ان معاملوں میں سامنے نظر نہیں آتیں لیکن ان کا کام کردار موجود ہے۔ جیسے کہ ایک کتاب ’ایک سو ایک اولیا خواتین‘ موجود ہے ۔ خواتین صوفیا کرام کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ سرف صوفی سلسلوں میں رہی ہیں بلکہ درویشانہ زندگی بھی اپنائی‘۔

حضرت رابعہ بصری ایک درویش صفت شخصیت گزری ہیں۔ جنہیں دنیا کے ڈھائی قلندروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ٓاٹھویں صدی ہجری کی ایک درویش خاتون تھیں۔ اللہ کے لیے ان کی محبت اور اس سے جڑی ریاضت کے لیے ان کو شہرت حاصل ہوئی۔

حضرت رابعہ بصری کی سوانح عمری ایران کے شاعر فرید الدین عطار نے تحریر کی ہے۔ یہ بھی کمال بات ہے کہ ایک درویش خاتون کی سوانح ایک مرد نے لکھی ہے۔ لہذا یہ بھی سمجھنا آسان ہوا کہ تصوف کا راستہ مرد و زن کی قید سے آزاد راستہ ہے جو چاہے اس پہ چل سکتا ہے۔

امر سندھو ہوں یا فاطمہ احسان ہوں یا پروین ٹالپر، سبھی کی سوچ کے زاویے ایک رستے پہ جا ملتے ہیں، اپنی روح کی نفی کا راستہ اور ملامتی صوفی ہونا ہی تصوف کی اصل روح ہے۔

خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائی کہ من بودم

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ