والدین بھی رہنمائی چاہتے ہیں

مخصوص بچوں کے والدین سپورٹ گروپس میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

مریض بچوں کے والدین کا سپورٹ گروپ میں ہونا انتہائی ضروری ہے (پکسا بے)

12 سالہ احمد مرگی سے دوچار ایک بہت پیارا اور جانور دوست بچہ ہے، لیکن جب سوتے میں کبھی دورہ پڑ جائے تو ماں سے سوال کرنے لگا ہے کہ ’امی میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘ اور یہاں سے شروع ہوتی ہے ایک ماں کے لیے اس سوال سے جڑے جواب کی تلاش اور رہنمائی کی ضرورت۔

یہ سوچ لینا کہ والدین ہی ہمارے رہنما ہیں اور ہمیں رستہ دکھاتے ہیں، کبھی کبھی تصویر کو پلٹ کے بھی دیکھنا چاہیے کہ والدین بھی رہنمائی کے متلاشی ہوتے ہیں۔
 
خاص کر وہ والدین جن کے بچے کسی نفسیاتی یا دماغی عارضے سے نبرد آزما ہوں۔ ایسے بچوں کے والدین اور بہن بھائیوں کے لیے بھی کچھ بنیادی اصول جاننا اہم ہے۔
 
اس بارے میں نیورولوجسٹ ڈاکٹر ماریہ خان نے بتایا کہ ’ایسے بچے جو ذہنی امراض کا شکار ہوں، ان کے لیے جتنی ادویات اہم ہیں اتنا ہی ان کے لیے سماجی طور پر مضبوط اور روادارانہ ماحول بھی ضروری ہے۔
 
’معالج نہ صرف دواؤں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی بچہ مرگی کا مریض ہے، ڈاؤن سنڈروم یا سیربرل پالسی سے دوچار ہے تو ہنگامی صورت حال میں گھر والوں کو پرسکون رہنا ہوتا ہے اور وقت کی ضرورت کے مطابق مریض بچوں کو سنبھالنے کی تدابیر فراہم کی جاتی ہیں۔‘
 
ان بچوں کے معصوم وجود کو اپنے لیے خدا کی ناراضگی یا آزمائش سمجھنا بھی والدین کے لیے صحت مند نہیں ہوتا۔
 
والدین کا اصل چیلنج ان کی بھرپور نگہداشت اور انہیں کسی حد تک معاشرے کا فعال حصہ بنانا ہوتا ہے۔ یاد رہے، بچوں کے عارضے کی شدت پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ انہیں کس طرح سنبھالا جا سکے۔
 
جو بچے آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی یا او سی ڈی کے شکار ہوں، ان کے لیے سکول جانا، کلاس کے ساتھ چلنا، ہوم ورک کرنا وغیرہ مشکل ثابت ہوتا ہے۔
 
لیکن ایسے میں سکول انتظامیہ، اساتذہ اور ساتھی طالب علموں کی مشترکہ سمجھ بوجھ اور مثبت کردار ہی ان بچوں کی حالت میں بہتری لا سکتے ہیں تاکہ وہ بخوشی سکول کے ماحول کو اپنا سکیں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ایک معصوم پریشان ذہن مزید تکلیف اور مایوسی کا سامنا کرتا ہے، جس سے گھر والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
 
سکول کی سطح پر اساتذہ اکثر ان بچوں کی سیکھنے کی رفتار کو پہچان نہیں پاتے اور ان کے ساتھ دیگر نارمل بچوں کی طرح سلوک کرتے ہیں، جو ان کے والدین کے لیے اذیت سے کم نہیں ہوتا۔
 
اس سلسلے کو فعال بنائے رکھنے کے لیے والدین اور اساتذہ، دوست احباب، قریبی پڑوسی سب کی ایک مشترکہ کوشش درکار ہوتی ہے۔
 
ان بچوں کے والدین اکثر ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں والدین کے سپورٹ گروپس اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔
 
یہ سپورٹ گروپ کس طرح کام کرتے ہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں نوجوان مریض بچوں کی تھیراپسٹ امرت خان سے بات کی۔
 
ان کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات ایسے بچوں کے والدین خود کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہوتے ہیں اور اکثر ان کے لیے ایسی اولاد شرمندگی کا باعث ہوتی ہے۔
 
’اس لیے ضروری ہے کہ وہ باہر نکلیں، کھلی فضا میں نہ صرف سانس لیں بلکہ زندگی کے حقائق کو قبول کرنا سیکھیں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب والدین کی آگاہی کے لیے سپورٹ گروپوں کا قیام کیا جائے اور والدین ماہرین کی مدد سے اپنی راہ متعین کریں۔‘
 
مغرب میں سپورٹ گروپ تو ایک عرصے سے کام کر رہے ہیں، البتہ ہمارے معاشرے میں یہ ایک نیا تصور ہے۔

آج سے تین چار دہائیوں قبل دیکھا جائے تو جو بچے ڈاؤن سنڈروم یا کسی ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے تھے، انہیں ایبنارمل، آسیب زدہ، سائیں وغیرہ کا نام دے دیا جاتا۔

والدین ان کو یا تو چھپا کر رکھا کرتے یا ان کو دوسروں کی معاونت کا مستقل محتاج سمجھا جاتا۔

ان بچوں کو سنبھالنا، ان کے ساتھ مستقل رہنا اور انہیں شخصی آزادی سے علیحدہ کر دینا اکثر ان بچوں کو مشتعل بھی کر دیتا ہے۔
 
والدین اور معاشرہ ان پر ترس کھاتا آیا ہے، لیکن ان کو کس طرح فعال بنایا جا سکتا ہے اس پر کم ہی غور ہوا ہے۔ نہ تو بچوں کے لیے ووکیشنل تربیت کے ادارے ہوا کرتے تھے اور نہ تربیت یافتہ ماہرین نفسیات۔
 
جب سے ذہنی صحت کے حوالے سے پاکستان میں بات ہونا شروع ہوئی اب یہ مزاج بدل رہا ہے اور علاج کے ساتھ ساتھ والدین کے لیے سپورٹ گروپس ترتیب دیے جاتے ہیں۔
 
سپورٹ گروپ ایسے لوگوں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو ایک جیسے مسائل یا تجربات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو جذباتی، عملی اور معلوماتی مدد فراہم کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
 
سپورٹ گروپ ایک محفوظ اور غیر فیصلہ کن ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں شرکا اپنی کہانیاں بانٹ سکتے ہیں، ایک دوسرے سے سیکھ سکتے ہیں اور تنہائی کا احساس کم کر سکتے ہیں۔
 
مخصوص بچوں کے والدین ایسے سپورٹ گروپس میں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں کہ ایسے بچوں کو کیسے پالا جائے، اس دوران کون کون سے مسائل سامنے آتے ہیں اور کہاں سے بہتر اور کس قسم کا علاج ہو سکتا ہے۔
 
اس کے علاوہ سپورٹ گروپس میں اپنی طرح کے مسائل کا شکار دوسرے لوگوں سے مل کر ڈھارس بھی بندھتی ہے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں، دوسرے لوگ بھی ہماری کشتی میں سوار ہیں۔
 
تھیراپسٹ سنبل کاکاخیل نے اس پر مزید روشنی ڈالی: ’ان مریضوں کے مسائل کی رینج کافی طویل ہوتی ہے۔ تھیراپسٹ کو آنے والے مریض کے بارے میں سائیکو ایجوکیشن ہونا بہت ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کچھ حصہ مرض کا ہوتا ہے، کچھ ایک انفرادی شخصیت اور گھر کا ماحول۔ ایک تھیراپسٹ اس پورے مرکب سے نمٹتا ہے لیکن نہ صرف مریض کی نگہداشت ضروری ہے بلکہ تیماردار کو اپنا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

’والدین کے لیے سپورٹ گروپ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ ان کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان سے آگاہی بھی اکثر نہیں ہو پاتی۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ ’جب اس طرح کے گروپس سے والدین جڑتے ہیں تو سب سے پہلے وہ خود کو اکیلا سمجھنا کم کرتے ہیں اور ایسے کئی والدین مل جاتے ہیں جو انہی کی کشتی میں سوار ہوتے ہیں۔
 
’اگر والدین ان بچوں کے ساتھ اپنی ذات پر توجہ دینا چھوڑ دیں گے تو وہ تھکنے لگ جاتے ہیں اور خود بیمار پڑ سکتے ہیں۔‘
 
والدین بن جانا ’قید‘ تو نہیں لیکن عمر بھر کی ذمہ داری ضرور ہوتی ہے۔ خاص کر وہ معصوم ذہن جو قدرتی طور پر یا کسی صحت کے مسئلے سے جڑے ہوں، ان کی دوا سے بھی بڑی امید و ضرورت ان کے والدین کی توجہ ہوتی ہے۔
 
اسی لیے والدین کو بھی رہنمائی حاصل کرتے رہنا چاہیے اور اپنے آنگن میں لگے قدرت کے ان نایاب پھولوں کی آبیاری جاری رکھنی چاہیے۔
 
12 سالہ مرگی کے مریض احمد کے والدین اس سلسلے میں مختلف سپورٹ گروپوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
 
ان کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہمیں جو بنیادی ڈھارس ملتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم اکیلے نہیں اور بھی کئی درجن والدین بچوں کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
 
وہ کہتی ہیں کہ ان گروپوں میں بات چیت سے ’دل ہلکا ہوتا ہے، نئے ڈاکٹروں کے بارے میں پتہ چلتا ہے اور اکثر والدین کے لیے سپورٹ گروپس کے دوران یوگا سیشن بھی منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ وہ تازہ اور سلجھے ذہن سے اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔‘
 
یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی گھر