ڈاؤن سنڈروم کے شکار کراٹے چیمپیئن جو اب ماڈلنگ بھی کرنا چاہتے ہیں

جینیاتی عارضے میں مبتلا علی احمد کی والدہ کے بقول ان کے بیٹے کو ماڈلنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی چانس نہیں ملا۔

والدہ شہناز نے بتایا کہ علی احمد نے گذشتہ برس ایران میں ہونے والے تیسرے بین الاقوامی کراٹے ٹورنامنٹ میں سونے کا تمغہ جیتا (علی احمد غنی انسٹاگرام) 

’میں علی کو سائیکل پر دکان سے سودا لینے بھیجتی ہوں۔ جب وہ جاتا ہے تو میں دوسری طرف سے چوری چھپے اس کے پیچھے جاتی ہوں تاکہ اس پر نظر رکھ سکوں۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ میں اس کے پیچھے ہوں۔ میرا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ کوئی اسے تنگ نہ کرے۔ میں بس اسے  پُر اعتماد بنانا چاہتی ہوں۔‘ 

یہ الفاظ شہناز غنی کے ہیں، جو بین الاقوامی کراٹے چیمپیئن 14 سالہ علی احمد کی والدہ ہیں۔ علی ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں، جو ایک جینیاتی عارضہ ہے اور جسمانی اور ذہنی مشکلات کا سبب بنتا ہے۔

کراٹے میں اپنا لوہا منوانے کے بعد اب علی ماڈلنگ کی دنیا میں بھی قدم رکھنا چاہتے ہیں۔

ان کی والدہ شہناز نے بتایا کہ علی نے گذشتہ برس ایران میں ہونے والے تیسرے بین الاقوامی کراٹے ٹورنامنٹ میں سونے کا تمغہ جیتا۔ 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Ali Ahmed (@ali_ahmed_ghani)

ان کی والدہ کے مطابق علی قومی سطح پر بھی کراٹے کے مقابلوں میں حصہ لے کر انعامات جیت چکے ہیں جبکہ اب وہ آئندہ چند ماہ میں تائیکوانڈو کی تربیت کے لیے اپنے کلب ’اوکیناوا مارشل آرٹس اینڈ فٹنس کلب‘ کے ذریعے جاپان جانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

’بس اس کے لیے میرا بیٹا سپانسر کی تلاش میں ہے۔‘  

 شہناز نے بتایا کہ کراٹے کے علاوہ علی کو ماڈلنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے لیکن ابھی تک انہیں کوئی چانس نہیں ملا۔

’بس ایک مرتبہ ایک فوڈ چین کے لیے علی  نے ماڈلنگ کی تھی۔ انہیں پانچ ہزار روپے ملے اور وہ لباس بھی جو انہوں نے شوٹ کے دوران پہنا۔ وہ اشتہار صرف خاص بچوں پر مبنی تھا، اسی لیے علی بھی اس کا حصہ تھے۔‘

’علی نارمل بچوں کی ٹیم میں رہے‘

شہناز نے بتایا کہ علی کو جاپان بھیجنے کے لیے ان کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں البتہ پنجاب پولیس نے مدد کا یقین دلایا ہے۔ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ علی کو پولیس میں کوئی اعزازی نوکری مل جائے تاکہ وہ کراٹے اور تائیکوانڈو کو جاری رکھ سکیں۔

علی احمد کے والد ایک ریٹائرڈ سینیئر پولیس افسر ہیں۔ علی سوشل میڈیا پر بھی متحرک ہیں اور انہوں نے انسٹاگرام اکاؤنٹ اور یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے۔  

والدہ کا کہنا تھا کہ علی اب تک جس بھی ٹورنامنٹ میں گئے، وہ نارمل بچوں کی ٹیم میں گئے۔ 

شہناز کے بقول: ’سپیشل اولمپکس والوں نے ہمیں پلو ہی نہیں پکڑایا کیونکہ ان کے مطابق ان گیمز میں کراٹے نہیں ہے۔ میں نے اسی لیے اب علی کو تائیکوانڈو میں ڈال دیا کیونکہ وہ سپیشل اولمپکس میں ہے لیکن پھر بھی انہوں نے ابھی تک ٹیم میں شامل نہیں کیا۔‘ 

شہناز نے بتایا کہ انہوں نے دو سال کی عمر میں ہی علی کی پڑھائی کا آغاز کر دیا تھا۔ انہیں مختلف سپیشل بچوں کے سکولوں میں داخل کروایا لیکن وہ مطمئن نہیں ہوئیں، اس لیے انہوں نے خود اس بات کا بیڑا اٹھایا کہ علی کو زندگی میں پُراعتماد بنانا اور اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شہناز کے مطابق علی پڑھنا لکھنا سیکھنے میں تھوڑی کم دلچسپی رکھتے ہیں لیکن انہیں کھیلوں، آرٹس اور ماڈلنگ کا جنون کی حد تک شوق ہے۔ ان کے مطابق سات، آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے علی کو کراٹے کی تربیت دلوانی شروع کی۔ ان کو سکھانے کے لیے استاد گھر پر آتے تھے۔  

انہوں نے بتایا کہ علی پیپر میشی کی چیزیں بھی بناتے ہیں۔ وہ گھنٹوں کاغذوں کو کاٹ کر ان سے برتن اور پاٹس وغیرہ بناتے اور انہیں پینٹ کرتے رہتے ہیں۔ جہاں انہیں ضرورت پڑے ان کی والدہ ان کی رہنمائی کر دیتی ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ علی کے علاوہ ان کی تین بیٹیاں ہیں جو سب علی سے بڑی ہیں۔ شہناز نے بتایا کہ علی کی تربیت میں ان کی بیٹیوں نے بھی بہت محنت کی۔ ان کی ایک بیٹی انجینیئر ہے اوربیرون ملک پی ایچ ڈی کر رہی ہیں اور جبکہ دوسری بیٹیاں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ 

ڈاؤن سنڈروم کیا ہے؟ 

کلینکل سائیکالوجسٹ سعدیہ نواز کے مطابق ڈاؤن سنڈروم ایک جینیاتی عارضہ ہے، اس میں خلیوں کی غیر معمولی تقسیم کے نتیجے میں کروموسوم 21 کی اضافی، مکمل یا جزوی نقل پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ اضافی جینیاتی مواد نشوونما میں تبدیلیوں اور جسمانی خصوصیات کا سبب بنتا ہے۔ 

سعدیہ کے مطابق ڈاؤن سنڈروم کی شدت مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے۔

’اس عارضے کے شکار افراد میں عمر بھر کی فکری معذوری اور نشوونما میں تاخیر ہوتی ہے۔ یہ سب سے عام جینیاتی کروموسومل عارضہ ہے اور بچوں میں سیکھنے کی کمزوری کا سبب ہے۔‘ 

ڈاؤن سنڈروم والے بچوں کی صلاحیتوں کو کیسے نکھارا جائے؟ 

کلینیکل سائیکالوجسٹ سعدیہ نواز اس حوالے سے کہتی ہیں: ’والدین جب ڈاؤن سنڈروم کے شکار بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت میں کمزوری دیکھیں تو اسی وقت ان کی جسمانی اور سپیچ تھراپی شروع کروا دیں۔‘ 

ان کے بقول: ’اکڈیمکس ہوں، ویژول یا سپیشل آرٹس،  ڈرامیٹکس کی فیلڈ یا کھیل ہر جگہ ان بچوں کے لیے بہت سکوپ ہے۔ ڈاؤن سنڈروم کے بچے ریاضی میں بہت اچھے ہو سکتے ہیں، کھیلوں میں بھی تیز ہو سکتے ہیں، لیکن یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ ان بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کے لیے کس قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں اور یہ بچے صحیح مواقع ملنے پر کسی بھی عام بچے کی طرح پھل پھول سکتے ہیں۔‘

شہناز کہتی ہیں کہ اب علی کی ایک خواہش ہے کہ انہیں ماڈلنگ کرنی ہے۔ ’میں اسی کے لیے کوشش کر رہی ہوں لیکن ابھی تک کسی جانب سے ہمیں کوئی خاص جواب نہں آیا۔ میں نے کچھ چینلز والوں سے ہی بات کی تھی مگر انہوں نے کہا کہ کوئی چانس نکلا تو بتائیں گے۔ ویسے یہ مختلف سکولز میں ماڈلنگ کرتے ہیں، جیسے کوئی پولیس کا کردار نبھانا ہو، فوجی کا یا کوئی اور یہ فوراً تیار ہو جاتے ہیں اور کبھی تنگ نہیں کیا۔‘ 

 کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ 

پاکستان سے 12 ہزارآٹھ سو 36 کلومیٹر دور پوسٹو ریکو میں صوفیا ہیراؤ نامی ایک خاتون ڈاؤن سنڈروم کا شکار ہیں۔ صوفیا ایک بین القوامی برانڈ ’وکٹوریا سیکرٹ‘ کی پہلی ڈاؤن سنڈروم ماڈل بھی ہیں۔ 

پاکستان میں کپڑوں کے برانڈز سوشل میڈیا پر اپنے کپڑوں کے اشتہاروں میں اب بزرگ خواتین اور مردوں کو بھی دکھا رہے ہیں جبکہ کچھ برانڈز نے ایسی ماڈلز کو بھی جگہ دی ہے، جنہیں تھوڑے بڑے سائز کے کپڑے درکار ہوتے ہیں۔  

لیکن کسی قسم کی جسمانی یا ذہنی معذوری کے شکار افراد کو ماڈلنگ کا چانس دیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں فیشن ڈیزائنر اور سٹائلسٹ عمیر ساجد نے کہا: ’میرا خیال ہے فیشن ایک ایسی انڈسٹری ہے، جس کا گہرا تعلق خوبصورتی اور فینٹسی سے ہے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ 

’گذشتہ 10 سے 20 سال کے عرصے میں فیشن، خوبصورتی کے کچھ مخصوص معیار تک محدود ہو گیا ہے، جیسے وکٹوریا سیکرٹ کی بات کریں تو انہیں زیادہ تر زیرو سائز ماڈلز چاہیے ہوتی ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ خوبصورتی تبھی ہے اگر لوگ بہت پتلے ہوں یا بالکل نارمل ہوں اور جو اس معیار پر نہیں آتا اسے ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘   

عمیر کے خیال میں فیشن سب کے لیے ہے اور انہیں لگتا ہے کہ علی یا ان جیسے افراد فیشن انڈسٹری میں بطور ماڈلز اس لیے کم ہیں کیونکہ ان کے حوالے سے آگاہی بھی کم ہے۔ 

عمیر کے بقول: ’فیشن ڈیزائنر اگر کسی چیز کو بیچ رہے ہیں تو یہ ان کا کاروبار ہے۔ وہ پیسے بنانا چاہتے ہیں اور اپنی مصنوعات کو بیچنا چاہتے ہیں، اس لیے وہ تھوڑا ڈرتے بھی ہیں کہ اگر وہ کسی ایک کمیونٹی کو پیش کریں گے تو وہ ان کے کاروبار کے لیے رسک لینے کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘ 

عمیر نے اس حوالے سے علی اور دیگر کو مشورہ دیا کہ سوشل میڈیا اور انسٹا گرام کے دور میں یہ موقع بھی ہے کہ ہم خود اپنی مارکیٹنگ کریں اور کسی کے انتظار میں نہ رہیں۔

عمیر کے اس مشورے کی ایک مثال اسلام آباد کی حمنہ عثمانی ہیں جو انسٹا گرام پر ایک میک اپ آرٹسٹ کے طور پر مشہور ہیں۔

حمنہ کے چہرے کی ایک سائیڈ پیدائشی نشان سے ڈھکی ہے جبکہ وہ اپنے چہرے کے دوسری جانب میک اپ لگاتی ہیں۔ انسٹا گرام پر ان کے فینز کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔  

وہ اپنے انسٹا گرام پر نہ صرف میک اپ سکھاتی ہیں بلکہ اپنے چہرے کے داغ کے حوالے سے لوگوں کو آگاہی بھی دیتی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل