سلین ڈیون کو لاحق بیماری ’سٹف پرسن سنڈروم‘ کیا ہے؟

فلم ’ٹائٹینک‘ میں اپنے گیت ’مائی ہارٹ ول گو آن‘ کی وجہ سے شہرت حاصل کرنے والی گلوکارہ سلین ڈیون ’سٹِف پرسن سنڈروم‘ نامی بیماری میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ یہ بیماری کیا ہے اور مریض کو کیسے متاثر کرتی ہے؟

سلین ڈیون نے کہا کہ یہ بیماری ان کی روزمرہ زندگی کے ہر حصے کو متاثر کر رہی ہے (اے ایف پی)

کینیڈین گلوکارہ سلین ڈیون نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انکشاف کیا ہے کہ وہ ’سٹِف پرسن سنڈروم‘ نامی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں، جو دس لاکھ میں سے ایک شخص کو متاثر کرتی ہے۔

گذشتہ روز انسٹاگرام پر انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں پوسٹ کی گئی ویڈیو میں سلین ڈیون نے کہا: ’میں طویل عرصے سے اپنی صحت کے مسائل کا شکار ہوں۔۔۔ حال ہی مجھ میں ایک انتہائی نایاب بیماری کی تشخیص ہوئی ہے، جو دس لاکھ میں سے ایک شخص کو متاثر کرتی ہے۔‘

54 سالہ سلین ڈیون نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا: ’اب پتہ چلا ہے کہ میرے جسم میں ہونے والی اینٹھن کا باعث یہ بیماری ہے جو میری روزمرہ زندگی کے ہر حصے کو متاثر کر رہی ہے اور مجھے چلنے پھرنے اور گانے میں بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘

انہوں نے فروری میں اپنا یورپ کا دورہ ملتوی کرنے کا بھی اعلان کیا۔

سلین ڈیون ویسے تو کافی عرصے سے گا رہی ہیں لیکن انہیں پاکستان سمیت دنیا بھر میں 1997 میں بلاک بسٹر فلم ’ٹائٹینک‘ میں گائے جانے والے گیت ’مائی ہارٹ ول گو آن‘ کی وجہ سے شہرت ملی، یہ گیت دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہوا اور اس نے آسکر، گریمی اور گولڈن گلوبز کے علاوہ متعدد دوسرے ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

اس گیت کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں سلین ڈیون نے نچلے سروں سے انتہائی اونچے سروں تک کا سفر بے حد سہولت اور آسانی سے طے کیا اور ایک ہی نغمے میں نرم و نازک رومان بھرے جذبات سے لے کر شدید جذبات ساتھ ساتھ ظاہر کیے تھے۔ اس کے علاوہ یہ گیت فلم کی المیہ کہانی کو عمدگی سے پیش کرتا ہے۔

’سٹِف پرسن سنڈروم (ایس پی ایس) کون سی بیماری ہے؟

ایس پی ایس پٹھوں کو متاثر کرنے والی ایک اعصابی بیماری ہے، جس کی وجہ سے جسم رفتہ رفتہ اکڑاؤ اور اینٹھن کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس کی وجہ سے مریض کے جسم میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے اور اسے روزمرہ کے معمولات سرانجام دینے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر سکاٹ نیوزسم کے مطابق یہ بیماری 1950 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیماری جسم کے کسی بھی پٹھے کو متاثر کر سکتی ہے مگر عام طور پر یہ کمر کے نچلے حصے، پیٹ اور ٹانگوں کے پٹھوں کو متاثر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اکثر مریض ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کا چکر لگاتے رہتے ہیں کہ اس کی کوئی وجہ یا علاج تلاش کیا جا سکے۔ بعض اوقات ان مریضوں کو پاگل بھی سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ابتدائی ٹیسٹوں میں اس کا پتہ نہیں چلتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نایاب بیماریوں کی ویب سائٹ raredisease.com کے مطابق ایس پی ایس میں اینٹھن کے دوروں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور کبھی مریض کو افاقہ ہو جاتا ہے مگر پھر اچانک کوئی تیز آواز سننے سے، سردی کے موسم میں یا کسی اور واقعے سے دوبارہ اینٹھن کا دورہ پڑ جاتا ہے۔

اگر ایس پی ایس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ مرض رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور مریض کو چلنے پھرنے اور روزمرہ زندگی کے دوسرے معمولات سرانجام لانے میں سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عورتیں زیادہ متاثر

یہ بیماری سالہا سال تک آہستگی سے پھیلتی رہتی ہے۔ شروع میں مریض کو پٹھوں میں درد یا اکڑ محسوس ہوتی ہے، جو بعض اوقات ٹھیک ہو جاتی ہے اس لیے مریض اسے معمولی تھکاوٹ سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے، لیکن یہ اکڑ وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے اور کندھوں، گردن اور کولہوں کو متاثر کرتی چلی جاتی ہے۔ بعد میں یہ بیماری ٹانگوں تک بھی پھیل جاتی ہے۔ مریضوں کی ایک قلیل تعداد میں یہ مرض بازوؤں اور چہرے کو بھی متاثر کرتا ہے۔

یہ مرض مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ شروع میں اس بیماری کا نام سٹف مینز سنڈروم تھا، مگر زیادہ خواتین مریضوں کے باعث اسے بدل کر سٹف پرسن کر دیا گیا۔

بیماری کی وجہ کیا ہے؟

ایس پی ایس کی اصل وجہ معلوم نہیں ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک آٹو امیون بیماری ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے دوران جسم کا مدافعتی نظام خود جسم کے خلاف سرگرم ہو جاتا ہے اور اعصاب کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔

اس بیماری کا علاج کیا ہے؟

کوئی واحد دوا ایسی نہیں ہے جو ایس پی ایس کا شافی اور مستقل علاج کر سکے۔ البتہ اس بیماری کی مختلف علامات کا عارضی علاج کیا جاتا ہے۔ مثلاً پٹھوں کی اینٹھن دور کرنے کے لیے ویلیم جیسی ادویات استعمال ہوتی ہیں، جب کہ تشنج کے دوروں کے لیے مریضوں کو مرگی کی ادویات دی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ مدافعتی نظام کو سست کرنے کی ادویات بھی استعمال کی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر نیوسم نے بتایا کہ اس کے دوسرے علاج بھی موجود ہیں، جو لوگوں کو معذوری سے بچاتے ہیں، مثلاً ہم بعض مریضوں کو بوٹاکس بھی دیتے ہیں جس سے پٹھوں کی اکڑ کم ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاج کا ایک اہم حصہ فزیو تھیراپی بھی ہے جس سے بہت مدد مل سکتی ہے، تاہم ایس پی ایس کی فزیو تھیراپی مختلف ہوتی ہے۔

ایس پی ایس کے علاج کے لیے ادویات کی تلاش جاری ہے، مگر چونکہ یہ نایاب بیماری ہے اس لیے اس میدان میں کم ہی کمپنیاں سامنے آتی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت