ارشد شریف کیس: اہلیہ کو 2 کروڑ 20 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم

عدالت نے قرار دیا ہے کہ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی نے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور ارشد شریف کی اہلیہ کو قتل کی تحقیقات کی پیش رفت سے متعلق مناسب معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

اس تصویر میں پاکستان کے صحافی اور اینکر ارشد شریف 22 جون 2022 کو اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران بات کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

کینیا کی عدالت برائے اپیل نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونے پر جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے ان کی بیوہ جویریہ صدیق کی اپیل جزوی طور پر منظور کر لی ہے، جس کے تحت انڈپینڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی کو ایک کروڑ کینیائی شلنگ بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود عدالتی فیصلے کی نقل کے مطابق، عدالت نے قرار دیا ہے کہ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی نے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور ارشد شریف کی اہلیہ کو قتل کی تحقیقات کی پیش رفت سے متعلق مناسب معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہی۔

عدالت نے واضح کیا کہ ادارے کو 30 روز میں جویریہ صدیق اور کینیا کورسپونڈنٹس ایسوسی ایشن کو تحریری طور پر آگاہ کرنا ہوگا کہ ارشد شریف کی موت کی تحقیقات پر کیا پیش رفت ہوئی، کن سفارشات کو ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن کو بھیجا گیا اور اس پر کیا ردِعمل سامنے آیا۔

دوسری جانب جویریہ صدیق اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے دائر کردہ کراس اپیل میں عوامی معافی، اضافی ہرجانہ، فوجداری کارروائی اور ملوث پولیس اہلکاروں کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ ابتدائی ٹرائل کورٹ نے ان مطالبات کو مسترد کر کے کوئی قانونی غلطی نہیں کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ’ہم اس بات پر مطمئن نہیں ہیں کہ ٹرائل کورٹ نے پہلی فریق (جویریہ صدیق) کی جانب سے مانگی گئی اضافی مراعات، جن میں عوامی معافی یا مقدمہ چلانے کے احکامات شامل تھے، دینے سے انکار کر کے کوئی غلطی کی ہو۔‘

عدالت نے یہ فیصلہ انڈپینڈنٹ پولیس اوورسائٹنگ اتھارٹی کی جانب سے دائر کی گئی اپیل پر سنایا، جس میں ہائی کورٹ کے پہلے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ یہ ادارہ کینیا میں پولیس کے خلاف عوامی شکایات کی تحقیقات اور نگرانی کے لیے قائم کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ایسے اقدامات کا حکم دینا عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں، بلکہ یہ اختیار متعلقہ تحقیقاتی و قانونی اداروں کو حاصل ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی قانونی ادارہ ہے اور اس سے صرف انہی پہلوؤں پر جواب طلب کیا جا سکتا ہے جو اس کے مینڈیٹ میں شامل ہیں۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ’ایک قانونی ادارہ، جیسے کہ انڈپینڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی صرف اس کی کارکردگی کے ان پہلوؤں پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے جو قانون میں اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہیں۔ اور اسے ایسے اقدامات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا جو اس کے قانونی اختیار سے باہر ہوں۔‘

’قاتلوں کو اس وقت سزا ہو گی جب تحقیقات پورے طریقے سے مکمل ہوں گی‘

جویریہ صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ فیصلے سے جزوی طور پر مطمئن ہیں، تاہم ان کا حقیقی انصاف تب ہوگا جب قاتلوں کو سزا دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’فیصلے میں دو اداروں کو تحقیقات کا کہا گیا ہے اور انہیں 30 دن کی مہلت دی گئی ہے۔ اگر اس فورم سے بھی انصاف نہ ملا تو میں کینیا کی سپریم کورٹ سے رجوع کروں گی۔‘

جویریہ نے پاکستان اور کینیا کے عدالتی نظام کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا: ’وہاں (کینیا میں) فیصلے دو سال میں ہو جاتے ہیں، ہماری طرح 40 یا 50 سال نہیں لگتے۔ چونکہ فیصلے کو جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے، کم از کم مجھے اتنی تسلی ہے کہ وہاں عدل کے نظام پر کچھ کام ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ نہیں ہو رہا۔‘

جویریہ نے مزید کہا کہ تحقیقات مکمل ہونے اور عدالت میں رپورٹ پیش ہونے کے بعد ہی اصل انصاف ممکن ہوگا۔ ’لیکن لگتا ہے کہ دنیا کی ہر پولیس تاخیری حربے اپناتی ہے۔ یہاں بھی پولیس وقت ضائع کر رہی ہے۔‘

جویریہ نے کہا ہے کہ ’قاتلوں کو اس وقت سزا ہو گی جب تحقیقات پورے طریقے سے مکمل ہوں گی اور عدالت سے شئیر ہوں گی۔ لیکن شاید پولیس ہر جگہ ایک ہی طریقہ سے کام کرتی ہے اور تاخیری حربے اپناتی ہے۔ پاکستان میں جب کبھی ہمارا کیس بھول کر لگ جائے تو حکومت وقت buy کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اور یہاں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال لگ رہی ہے۔‘

جویریہ صدیق نے امید ظاہر کی کہ اگر اس فورم سے انصاف نہ ملا تو کینیا کی سپریم کورٹ ضرور انصاف فراہم کرے گی۔ ان کے مطابق بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں اس سلسلے میں ان کے ساتھ کھڑی ہیں۔

یاد رہے کہ مارچ 2025 میں کینیا کی ہائی کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس میں مجرموں کو سزا نہ دیے جانے اور حکومت کی جانب سے حکمِ امتناعی حاصل کرنے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

اس سے قبل جولائی 2024 میں کینیا کی عدالت نے جویریہ صدیق کی درخواست پر دو پولیس اہلکاروں کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا، جبکہ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ تحقیقات سے متعلق معلومات فراہم کرنا درخواست گزار کا آئینی حق ہے، جو تاحال ادا نہیں کیا گیا۔

عدالت نے رواں برس مارچ میں کینیا کی حکومت کے سٹے لینے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

پاکستانی صحافی ارشد شریف کے پولیس کے ہاتھوں قتل میں ملوث اہلکاروں کو ہائی کورٹ نے جولائی 2024 میں سزائیں سنائی تھیں۔ تاہم فیصلے پر تاحال عمل نہ ہونے اور کینیا کی حکومت کی جانب سے حکم امتناعی لینے پر ارشد کی اہلیہ جویریہ صدیق نے درخواست دائر کی تھی۔

سال 2022 میں پاکستانی اینکر و صحافی ارشد شریف کا 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل ہوا جس کے بعد کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ غلط شناخت کے باعث ارشد شریف کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔

اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں نوکری پر بحال کر دیا گیا۔

ارشد شریف قتل کیس میں کینیا کی عدالت نے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ملوث دو پولیس افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا