گذشتہ ماہ حادثے کا شکار ہونے والی ایئر انڈیا کی بد قسمت پرواز کی ابتدائی تحقیقات نے ایک بار پھر دونوں پائلٹس پر توجہ مرکوز کر دی ہے کیونکہ تحقیقات کے دوران کاک پٹ میں کچھ کشمکش کے لمحات سامنے آئے ہیں۔
انڈیا کے ایئرکرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹیگیشن بیورو کی جانب سے شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ فیول کنٹرول سوئچز کو تقریباً ایک ہی وقت میں ’کٹ آف‘ پوزیشن پر منتقل کیا گیا جس سے انجنز کو ایندھن کی فراہمی بند ہو گئی۔ یہ معلومات طیارے کے بلیک باکسز سے حاصل کیے گئے وائس ریکارڈر کی جانچ کے بعد سامنے آئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 12 جون کی روشن دوپہر مقامی وقت 1:37 بجے احمد آباد سے لندن کے لیے روانہ ہونے والی بوئنگ 787 ڈریم لائنر کی پرواز کے اڑان بھرنے کے فوری بعد طیارے کے انجن کی طاقت کم ہوگئی اور وہ نیچے گرنا شروع ہوگیا۔
فلائٹ اے آئی 171 میں سوار 242 افراد میں سے 241 جان سے گئے، جن میں 53 برطانوی شہری شامل تھے۔ صرف اے 11 سیٹ پر بیٹھا ایک انڈین نژاد برطانوی شخص ہی زندہ بچ پایا۔
طیارے کے ایک میڈیکل کالج کی عمارت سے ٹکرا جانے کے بعد مزید 19 افراد کی موت ہوئی جس سے مرنے والوں کی کی تعداد 260 تک پہنچ گئی۔
رپورٹ میں کسی بھی پائلٹ پر الزام دینے سے گریز کیا گیا ہے لیکن کاک پٹ کی وائس ریکارڈنگ میں ایک پائلٹ کو یہ سوال کرتے ہوئے سنا گیا: ’تم نے کیوں کٹ آف کر دیا؟‘ جس پر دوسرے پائلٹ نے جواب دیا کہ اس نے ایندھن نہیں بند کیا۔
یہ تاثر کہ کسی پائلٹ کی غلطی حادثے کی وجہ ہو سکتی ہے،نے پائلٹس کمیونٹی میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ انڈین پائلٹس ایسوسی ایشن نے احمد آباد حادثے میں پائلٹ کی غلطی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔
ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا، جو مونٹریال میں قائم انٹرنیشنل فیڈریشن آف ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشنز میں انڈین پائلٹس کی نمائندگی کرتی ہے، نے ’منصفانہ، حقائق پر مبنی تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا۔
ایئر لائن پائلٹس ایسوسی ایشن انڈیا کے صدر سیم تھامس نے اتوار کو کہا: ’پائلٹس کے ادارے کو اب اس تحقیق کا حصہ بنایا جانا چاہیے، کم از کم مبصرین کے طور پر۔‘
بدقمست طیارے کے دونوں پائلٹس کون تھے؟
کپتان سومیت سبھروال
56 سالہ سومیت سبھروال نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں اپنے فضائی کیریئر کا آغاز کیا اور 15,000 سے زائد گھنٹے پرواز کا تجربہ حاصل کیا۔ انہوں نے 1994 میں ایئر انڈیا میں شمولیت اختیار کی اور ’لائن ٹریننگ کپتان‘ کے طور پر کام کیا، جن کا کام کوپائلٹ کو لائیو فلائٹس کے دوران تربیت دینا تھا۔
انہوں نے بوئنگ 787 اور 777 اور ایئربس اے310 جیسے طیاروں کو پائلٹ ان کمانڈ کے طور پر پرواز کرنے کے لیے کلیرنس حاصل کی تھی۔
اپنے 15,638 گھنٹے کی مجموعی پرواز کے تجربے میں سے 8,596 گھنٹے انہوں نے بوئنگ 787 پر پرواز کی تھی۔
ممبئی کے پَوائی علاقے سے تعلق رکھنے والے سبھروال اپنی اصول پسندی اور پیشہ ورانہ کام کے لیے جانے جاتے تھے اور ان کے خلاف کبھی کوئی شکایت نہیں آئی۔ دوست اور خاندان انہیں ایک نرم گفتار اور عاجز شخص کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
اگرچہ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی ان کے بچے تھے لیکن ان کا اپنے 88 سالہ والد پُشکر راج کے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ تھا۔
ریٹائرمنٹ سے چند ماہ دور، سبھروال نے اپنے والد کے ساتھ گھر پر مکمل وقت گزارنے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
اس کے پڑوسیوں نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اپنے والد کی بڑھتی عمر کی دیکھ بھال کرنے اور گھر پر مزید وقت گزارنا چاہ رہے تھے۔
حادثے کے دن بھی انہوں نے ایئرپورٹ سے اپنے والد کو کال کی اور کہا تھا، ’میں لندن پہنچ کر آپ کو کال کروں گا۔‘ لیکن وہ کال کبھی نہیں آئی۔
سبھروال کی ایک بڑی بہن زندہ ہیں جو دہلی میں رہتی ہیں جن کے دونوں بیٹے اپنے ماموں سے متاثر ہو کر اب کمرشل پائلٹ بن چکے ہیں۔
فرسٹ آفیسر کلائیو کُندر
کپتان سبھروال کے برعکس، 32 سالہ فرسٹ آفیسر کلائیو کُندر ایک روشن کیریئر کے ابتدائی دور سے گزر رہے تھے اور ان کے ریکارڈ پر 3,400 گھنٹے سے زیادہ پرواز کا وقت تھا۔
کُندر ممبئی میں پلے بڑھے اور گڑ گاؤں علاقے میں اکیلے رہ رہے تھے۔ انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے بچپن سے ہی فضائی سفر کا خواب دیکھا تھا اور 2012 میں پائلٹ کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور 2017 میں ایئر انڈیا میں شمولیت اختیار کی۔
ان کا کمرشل پائلٹ لائسنس 2020 میں جاری کیا گیا جو 26 ستمبر 2025 تک قابل عمل تھا۔ انہوں نے کسانا 172 اور پیپر پی اے 34 طیاروں کو پائلٹ ان کمانڈ کے طور پر اڑانے کی اجازت حاصل کی تھی اور ایئربس اے 320 اور بوئنگ 787 طیاروں پر کو۔پائلٹ کے طور پر اڑانے کی بھی اجازت تھی۔
کُندر بھی اپنی ذاتی زندگی کے ایک نئے باب کے منتظر تھے۔ ان کی شادی میں صرف دو ماہ باقی تھے۔
ان کی آخری رسومات میں، جو ان کے گھر کے قریب سیوری کرسچن قبرستان میں ہوئیں، ان کی قریبی دوست سٹیفی مرانڈا نے خاندان اور دوستوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’17 سال پہلے ہم پہلی بار کلائیو سے ملے تھے۔ اس کے بعد ہم نے انہیں بڑھتے ہوئے، ترقی کرتے ہوئے اور پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔ اگرچہ غم ہمیں گھیرے ہوئے ہے لیکن ہمیں ان پر فخر بھی ہے۔ وہ ہم سے دور نہیں گئے، وہ اب بس اور اونچی پرواز کر رہے ہیں۔‘
دونوں پائلٹس کو فضائی شعبے سے تعلق گھر سے ہی وراثت میں ملا تھا۔ سبھروال کے والد پُشکر راج انڈیا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن سے ریٹائر ہوئے تھے اور کُندر کی والدہ ایئر انڈیا کی سابق فلائٹ اٹینڈنٹ تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیر کو ایئر انڈیا کے سی ای او کیمپبل ولیسن نے کہا کہ دونوں پائلٹس نے پرواز سے پہلے کی ضروری بریتھلیزر ٹیسٹ پاس کیے تھے اور ان کی طبی حالت کے بارے میں کوئی خاص (تشویشناک) رائے نہیں آئی تھی۔
روئٹرز کو موصول ہونے والے ایک اندرونی میمو کے مطابق ولیسن نے کہا: ’ایئر انڈیا کے حادثے کی تحقیقات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔ اور مزید کہا کہ ایئرلائن حکام کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔‘
تاہم انہوں نے ابتدائی تحقیقات پر بڑھتی ہوئی عوامی دلچسپی کے دوران ’جلدی نتیجہ اخذ کرنے‘ سے احتیاط کرنے کی تنبیہ کی۔
ایک پائلٹ کے آخری الفاظ میں، جو زیادہ تر سبھروال کے ہونے کا امکان ہے، ایک بے چین پیغام میں کہا: ’تھرسٹ حاصل نہیں ہو سکا، یہ گر رہا ہے۔۔ مے ڈے! مے ڈے! مے ڈے۔‘
© The Independent