انڈیا کی حکومت نئے ایئر کنڈیشنرز کے درجہ حرارت کی حد مقرر کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ بجلی بچائی جا سکے یہ تجویز ایسے وقت سامنے آئی ہے جب انڈیا کو ایئر کنڈیشنرز کے لیے سب سے تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی مارکیٹ سمجھا جا رہا ہے۔
انڈین وزیر برائے توانائی نے ایک نئے قانون کی تجویز پیش کی ہے جس کے تحت انڈیا میں فروخت ہونے والے ایئر کنڈیشنرز میں تھرمو سٹیٹس ہونا ضروری ہو گا جو 20 ڈگری سیلسیس سے کم پر سیٹ نہ کیے جا سکیں۔
انڈین حکام امید کرتے ہیں کہ اس پابندی سے ملک کی 1.4 ارب کی آبادی میں بڑی توانائی کی بچت ہوگی گی۔ انڈیا میں سالانہ ایک سے ڈیڑھ کروڑ ایئر کنڈیشنرز فروخت ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کی آمدنی اور شہری آبادی کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ملک میں موجودہ کم از کم سیٹنگ 17 ڈگری سیلسیس ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ جب ایئر کنڈیشنر کا درجہ حرارت ہر ایک ڈگری بڑھایا جاتا ہے تو توانائی کی بچت تقریباً چھ فیصد ہوتی ہے۔
مجوزہ قانون پر ردعمل
توانائی کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ تجویز ایک مثبت قدم ہے لیکن اگر ایئر کنڈیشنرز کو زیادہ توانائی کی بچت کے قابل بنایا جائے تو یہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔
توانائی کے وزیر منوہر لال کھٹتر نے کہا کہ تجویز کردہ قانون جلد نافذ ہو جائے گا لیکن اس کے نفاذ کے حقیقی وقت کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔
اس تجویز پر انڈیا کے گرم علاقوں کے شہروں میں رہنے والوں کی مختلف آرا آئی ہیں۔
چنئی شہر میں بطور معلم کام کرنے والے 37 سالہ وکرم کنن نے کہا: ’مجموعی طور پر، میں سمجھتا ہوں کہ توانائی بچانے کی کوشش کرنا اچھا ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ حکومت یہ یقینی بنائے گی کہ لوگوں کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ کبھی کبھی چنئی جیسے شہروں میں ایئر کنڈیشنر کا درجہ حرارت کم کرنا ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ گرمی اور نم ہوا ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ نہ کریں تو میری بیٹی کو گرمی کے دانے نکل آتے ہیں۔‘
ایئر کنڈیشنرز انڈیا میں تیزی سے توانائی کے سب سے زیادہ کھپت کرنے والے برقی آلات بنتے جا رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلی کے محققین کے مطابق 2024 میں جب بجلی کی طلب سب سے زیادہ تھی یعنی ’پیک ڈیمانڈ‘ کے دوران ایئر کنڈیشنرز نے کل بجلی کی کھپت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ استعمال کیا۔
انہوں نے تخمینہ لگایا کہ ’2019 اور 2024 کے درمیان جو نئے ایئر کنڈیشنرز نصب کیے گئے، وہ انڈیا کی پیک ڈیمانڈ میں اضافے کا سبب بنے جو تقریباً اتنی مقدار ہے جو دہلی کو ایک سال تک توانائی فراہم کرنے کے لیے درکار ہے۔‘
توانائی کی طلب عام طور پر گرمیوں کے مہینوں میں زیادہ ہوتی ہے جب ملک کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت 51 ڈگری سیلسیس تک پہنچ سکتا ہے۔
اگر بڑی تبدیلیاں نہ کی گئیں تو انڈیا میں اگلے سال تک بجلی کی کمی ہو سکتی ہے۔ انڈیا کی توانائی کی طلب بھی ایک اہم وجہ ہے کہ ملک زمین گرم کرنے والی گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والوں میں شامل ہے۔ صاف توانائی کا استعمال بڑھ رہا ہے لیکن انڈیا کی زیادہ تر بجلی آب و ہوا کو آلودہ کرنے والے تیزابی ایندھن جیسے کوئلے سے فراہم کی جاتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلی میں انرجی اینڈ کلائمٹ سینٹر کے سربراہ نکیت ابھیانکر نے کہا کہ ’دہلی جیسے دوسرے بڑے انڈین شہروں میں اب بجلی کی کھپت دو الگ الگ اوقات میں زیادہ ہو رہی ہے یعنی ایک دوپہر کے وقت اور دوسری آدھی رات کے قریب اور یہ زیادہ تر ایئر کنڈیشنرز کی وجہ سے ہو رہی ہے۔‘
ان کے بقول: اگرچہ سولر توانائی دن کے وقت کی طلب کو پورا کرنے میں مدد دے سکتی ہے لیکن رات کو ٹھنڈک فراہم کرنے کا انحصار اب بھی زیادہ تر تیزابی ایندھن پر ہے۔
قواعد میں تبدیلیاں صارفین کو کم توانائی استعمال کرنے کی ترغیب دے سکتی ہیں
پچھلی ایک دہائی میں توانائی بچانے کے لیے حکومتی اقدامات میں تازہ ترین ایئر کنڈیشنر کی تجویز ہے، جیسے کہ حکومت کے دفاتر میں ایئر کنڈیشننگ کا درجہ حرارت 24 ڈگری سیلسیس سے کم نہ کرنے کا قانون۔
2022 میں حکومت نے مشن لائف پروگرام شروع کیا جس میں لوگوں کو بجلی کی کھپت کم کرنے یا غیر ضروری کار کے سفر کو چھوڑنے کی ترغیب دی گئی۔ اس منصوبے کو بہت دھوم دھام سے پیش کیا گیا تھا لیکن اس پر مختلف ردعمل آیا۔
کچھ لوگ ایئر کنڈیشنر کی سیٹنگز میں تجویز کردہ تبدیلی کے حامی ہیں۔ مشرقی دہلی کے 47 سالہ سنیل کمار نے کہا کہ یہ قانون آگ لگنے کے خطرات کو کم کر سکتا ہے اور صارفین کے بلوں میں کمی لا سکتا ہے۔
شہر میں آٹو رکشہ چلا کر روزی کمانے والے کمار نے کہا : ’لوگوں نے ایئر کنڈیشنرز کے بغیر بھی گزارا کیا ہے۔ ہم گزارا کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دہلی کے ایک کاروباری شخص سرجیت سنگھ نے کہا کہ ایئر کنڈیشنر کو موجودہ کم ترین سیٹنگ پر کر دینا ’غیر ضروری‘ تھا۔
انہوں نے کہا: ’لوگ بہت آرام پسند ہو گئے ہیں۔‘ انہوں نے تجویز دی کہ شہروں کو اربن ہیٹ سے نمٹنے کے لیے درخت لگانے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
انڈین ایئر کنڈیشنرز غیر مؤثر ہیں
ابھیانکر نے کہا کہ اگرچہ درجہ حرارت کی سیٹنگز کو تبدیل کرنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن ایئر کنڈیشنرز کو توانائی کی بچت کے قابل بنانا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
ابھیانکر جو امریکہ، چین، انڈونیشیا اور ویتنام میں بھی توانائی کے شعبے کا مطالعہ کر چکے ہیں، نے کہا: ’کم از کم کارکردگی کے معیارات کو سخت کرنا چیزوں کو کافی حد تک بدل سکتا ہے۔‘
دہلی میں آلائنس فار انرجی ایفیشنٹ اکانومی کے توانائی بچت کے ماہر پرامود سنگھ نے مجوزہ قانون کو ’صحیح سمت میں درست قدم‘ قرار دیا اور کہا کہ انڈیا کے اندازاً آٹھ کروڑ پرانے اور غیر مؤثر ایئر کنڈیشنرز کو تبدیل کرنا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
ابھیانکر نے کہا کہ انڈیا میں دستیاب کئی یونٹس اتنے غیر مؤثر ہیں کہ انہیں بہت سے دوسرے ممالک میں فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ انڈیا اپنے اکثر کنڈیشنرز کے لیے اہم حصے چین سے درآمد کرتا ہے لیکن تقریباً 80 فیصد ایئر کنڈیشنرز جو فی الحال انڈیا میں فروخت ہو رہے ہیں، چین میں ممنوع ہوں گے۔ ‘
توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر چھوٹی تبدیلیاں بھی توانائی کے استعمال اور صارفین کے اخراجات کو کم کر سکتی ہیں، جیسا کہ یہ یقینی بنانا کہ تمام نئی عمارات مناسب طریقے سے ہوادار ہوں، ایئر کنڈیشنرز کو دوسرے ٹھنڈک کے طریقوں کے ساتھ جوڑنا اور انہیں چلانے کے لیے سمارٹ ٹیکنالوجیز کا استعمال کرنا۔
ابھیانکر نے وضاحت کی کہ ’ایئر کنڈیشنر کا استعمال کافی حد تک کم ہو جاتا ہے اگر صارفین اپنے سیلنگ فین بھی چلائیں، کیونکہ اس سے کمرہ بہت تیزی سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
© The Independent