کیا ماحولیاتی تحفظ ایک ہاری ہوئی جنگ ہے؟

دنیا 2100 تک اوسطاً 2.7 ڈگری سیلسیئس حرارت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ حد بھی زمین پر زندگی کے لیے ’بے مثال خطرہ‘ ہو گی، لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہتری کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔

7 فروری 2023 کو بیجنگ میں شام کے رش کے اوقات میں ایک اوور پاس سے ٹریفک نظر آتی ہے۔ چین دنیا کا تقریباً ایک تہائی (31%) توانائی سے جڑا کاربن اخراج کرتا ہے، کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی صنعتی معیشت ہے۔ اس لیے چین کی ہر کمی کا عالمی اثر ہو گا (وانگ ژاؤ / اے ایف پی)

امریکہ دوسری بار پیرس معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہے، جبکہ خشکی اور سمندر پر گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اور شدید موسمی آفات میں اضافہ ہوا ہے۔

2015  کے آخر میں دنیا کے ممالک نے پیرس معاہدے کے تحت یہ طے کیا کہ وہ عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سیلسیئس سے کم رکھنے اور ممکنہ حد تک 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کی کوشش کریں گے۔ تقریباً 10 برس بعد اخراج میں اتنی کمی کرنا کہ 1.5 ڈگری کا ہدف حاصل ہو سکے، بہت مشکل نظر آ رہا ہے۔

لیکن انسانیت نے بدترین ماحولیاتی مستقبل کو ٹالنے کے لیے اپنا راستہ ضرور بدلا ہے۔ متبادل توانائی، توانائی کی بچت اور دیگر اقدامات نے صورتحال کو قدرے بہتر کیا ہے۔ کوئلے کے بڑھتے ہوئے استعمال، بڑھتے ہوئے کاربن اخراج اور کہیں زیادہ گرم دنیا کا بدترین منظرنامہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

اب دنیا 2100 تک اوسطاً 2.7 ڈگری سیلسیئس حرارت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ حد بھی زمین پر زندگی کے لیے ’بے مثال خطرہ‘ ہو گی، لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بہتری کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔

ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟ تقریباً 1850 میں صنعتی دور کے آغاز کے بعد سے عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہوا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سب سے بڑی مقدار میں خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیس ہے، جبکہ میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی حرارت کو کرۂ ہوائی میں قید کر لیتی ہیں اور اسے خلا میں واپس جانے سے روکتی ہیں۔

2023 میں دنیا کے توانائی سے متعلق کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کا 41 فیصد کوئلے سے، 32 فیصد سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کے ایندھن سے اور 21 فیصد عمارتوں کی حرارت اور صنعتی عمل میں قدرتی گیس کے استعمال سے آیا۔

دنیا یقیناً اس کے اثرات محسوس کر رہی ہے۔ عالمی موسمیاتی ادارے نے تصدیق کی کہ 2024 اب تک کا سب سے گرم سال رہا، جو عارضی طور پر قبل از صنعتی دور سے 1.5 ڈگری زیادہ رہا۔ اس کے نتیجے میں جان لیوا ہیٹ ویوز، تباہ کن سیلاب اور شدید طوفان آئے۔

ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں؟ 2014 میں اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی سائنسی ادارے — انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج نے مندرجہ ذیل ممکنہ ماحولیاتی منظرنامے متعارف کروائے:

تیز رفتار ماحولیاتی اقدامات، کم اخراج (RCP 2.6)

درمیانے درجے کے اقدامات اور اخراج (RCP 4.5 اور 6.0)

کوئی اقدام نہیں، زیادہ اخراج (RCP 8.5)

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زمین کی ہر مربع میٹر سطح پر کتنے مزید واٹ حرارت پہنچے گی۔ ان میں سے صرف RCP 2.6 پیرس معاہدے کے دو ڈگری ہدف کے مطابق ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زمین اس وقت RCP 2.6 اور 4.5 کے درمیان جا رہی ہے، جو 2100 تک تقریباً 2.7 ڈگری گرم دنیا کی طرف اشارہ ہے۔

انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج نے اس کے ساتھ ساتھ پانچ سماجی، معاشی اور سیاسی منظرنامے بھی تجویز کیے۔ ہم اس وقت درمیانی درجے کے راستے پر ہیں، جہاں ترقی غیر مساوی ہے، وسائل اور توانائی کے استعمال کی شدت کم ہو رہی ہے اور آبادی کا اضافہ سست ہو رہا ہے۔

اگرچہ یہ منظرنامے مؤثر رہے، مگر اب ان کی عمر ایک دہائی سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کے جواب میں، میرے ساتھیوں اور میں نے ون ارتھ کلائمیٹ ماڈل بنایا، جس کا مقصد تیزی سے کاربن اخراج ختم کرنے کے راستے طے کرنا ہے۔ ہم نے 450 گیگاٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ایک پرعزم کاربن بجٹ مقرر کیا — جو RCP 2.6 سے بھی زیادہ سخت ہے۔

امریکہ، یورپی یونین اور چین عالمی آبادی کا 28 فیصد ہیں، لیکن تاریخی اخراج کا 56 فیصد (926 گیگاٹن) انہی ممالک نے کیا ہے۔ 1.5 ڈگری کے مطابق رہنے کے لیے ان کے پاس 243 گیگاٹن CO₂ کا بجٹ باقی ہے۔ اس میں سب سے بڑا بجٹ چین کو درکار ہے۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ 2050 تک دنیا کی 100 فیصد توانائی صاف ذرائع سے حاصل کی جائے اور فوسل فیول کا استعمال ختم کیا جائے۔ اس سے گلوبل وارمنگ کو تقریباً 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کا 50 فیصد سے زیادہ امکان ہو گا۔ جنگلات کی کٹائی بھی اسی عرصے میں ختم کرنا ہو گی۔

کیا اخراج کی حد پر ہم پہنچ گئے؟ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں تاحال کمی نہیں آ سکی، حالانکہ متبادل بجلی، بیٹری سٹوریج اور سستی الیکٹرک گاڑیاں تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔

تاہم، پیش رفت ہوئی ہے۔ یورپی یونین کے مطابق 2023 میں اس کے اخراج میں 8.3 فیصد کمی آئی۔ 1990 کے مقابلے میں یورپ کے خالص اخراج اب 37 فیصد کم ہو چکے ہیں، جبکہ اسی عرصے میں خطے کی معیشت 68 فیصد بڑھی ہے۔ یورپی یونین 2030 تک کم از کم 55 فیصد کمی کے ہدف کی طرف گامزن ہے۔

آسٹریلیا کا اخراج گذشتہ برس 0.6 فیصد کم ہوا۔ اب ملک 2005 کے جون کے مقابلے میں 28.2 فیصد کم اخراج پر ہے، جبکہ اس کا پیرس معاہدہ ہدف 43 فیصد کمی ہے۔

امریکہ کا اخراج تاحال وبا سے پہلے کی سطح سے کم ہے، اور 2005 کے مقابلے میں 20 فیصد نیچے ہے۔ 2004 کے بعد سے امریکی اخراج میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔

چین — دنیا کا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے والا ملک — بھی اب آخرکار اپنا اخراج کم کر رہا ہے۔ متبادل توانائی میں بڑے پیمانے پر اضافے نے پہلی بار اخراج میں کمی کی ہے، باوجود اس کے کہ بجلی کی طلب بڑھ رہی ہے۔

چین دنیا کا تقریباً ایک تہائی (31%) توانائی سے جڑا کاربن اخراج کرتا ہے، کیونکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی صنعتی معیشت ہے۔ اس لیے چین کی ہر کمی کا عالمی اثر ہو گا۔

انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج کے مطابق اگر گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنا ہے تو 2025 سے پہلے عالمی اخراج کی چوٹی آ جانا چاہیے۔ اب لگتا ہے کہ یہ چوٹی شاید اسی سال آ جائے۔

اگرچہ روز منفی خبریں سننے کو ملتی ہیں، لیکن ڈی کاربونائزیشن کی گاڑی روانہ ہو چکی ہے۔ 2024 میں دنیا بھر میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ متبادل توانائی کا تھا۔ الیکٹرک گاڑیاں قیمت میں مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئی ہیں، ہیٹ پمپس تیزی سے ترقی کر رہی ہیں اور شمسی توانائی کی کامیابی جاری ہے۔

تو کیا اب ماحولیاتی تحفظ کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے؟ نہیں۔ جن ٹیکنالوجیز کی ہمیں ضرورت تھی، وہ اب سستی ہو چکی ہیں۔ جتنی جلد ہم ماحولیاتی تبدیلی کو بگڑنے سے روکیں گے، اتنی زیادہ آفات، قحط اور اموات سے بچا جا سکے گا۔ شاید ہم 1.5 ڈگری یا 2 ڈگری کا ہدف حاصل نہ کر سکیں، لیکن درجہ حرارت کا ہر دسواں حصہ بھی معنی رکھتا ہے۔ جتنا تیز ہم تبدیلی لائیں گے، مستقبل اتنا ہی بہتر ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر دی کنورسیشن میں چھپی تھی اور اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ