ایک فیصد امیر کاربن اخراج میں پانچ ارب افراد کے برابر: آکسفیم

محققین کا کہنا ہے کہ 99 فیصد نچلے طبقے کے افراد کو اتنا کاربن پیدا کرنے میں 1500 سال لگیں گے جتنا امیر ترین ارب پتی افراد ایک سال میں پیدا کرتے ہیں۔

اس جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتہائی امیر افراد اور متوسط طبقے کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے (تصویر: اینواتو)

رفاہی اداروں کی عالمی تنظیم آکسفیم کی پیر کو جاری شدہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے امیر ترین ایک فیصد افراد کا کاربن اخراج پانچ ارب افراد یا عالمی آبادی کے دو تہائی حصے کے برابر ہے۔

’2019 میں دنیا بھر میں سات کروڑ 70 لاکھ افراد پر مشتمل ایک فیصد افراد کاربن کے عالمی سطح پر 16 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں۔‘

یہ مقدار دنیا بھر میں کاروں اور سڑکوں پر نقل و حرکت کے نتیجے میں مشترکہ اخراج سے کہیں زیادہ ہے۔ 2030 تک زیادہ درجہ حرارت 13 لاکھ اضافی اموات کا سبب بننے کے لیے کافی ہے۔ اموات کی یہ تعداد ڈبلن کی آبادی کے برابر ہے۔

اس جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتہائی امیر افراد جن کا طرز زندگی عالمی ماحولیاتی بحران کا سبب بن رہا ہے اور غریب اور متوسط طبقے جو اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، کی جانب سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے درمیان واضح فرق پایا جاتا ہے۔

آکسفیم کی ماحولیاتی انصاف کی پالیسی کی سینیئر مشیر کیارا لگوری کہتے ہیں: ’انتہائی امیر لوگ لوٹ مار میں مصروف ہیں اور کرہ ارض کو تباہی کی حد تک آلودہ کر رہے ہیں اور جو لوگ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں وہ ماحولیاتی تباہی کے نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ 99 فیصد نچلے طبقے کے افراد کو اتنا کاربن پیدا کرنے میں 1500 سال لگیں گے جتنا امیر ترین ارب پتی افراد ایک سال میں پیدا کرتے ہیں۔ لگوری نے مزید کہا کہ ’یہ بنیادی طور پر غیر منصفانہ عمل ہے۔‘

رپورٹ کے اہم نتائج

• 1990 کی دہائی کے بعد سے امیر ترین ایک فیصد افراد نے انسانوں کے نچلے نصف حصے کے مقابلے میں دگنے سے زیادہ کاربن پیدا کیا۔
• امیر ترین ایک فیصد افراد کا کاربن اخراج پیرس معاہدے کے 1.5 درجے سیلسیئس کے ہدف سے مطابقت رکھنے والی سطح سے 2030 میں 22 گنا زیادہ ہوگا۔ اس کے برعکس عالمی آبادی کے غریب ترین نصف حصے کا اخراج 1.5 درجے سیلسیئس کی مطابقتی سطح کا پانچواں حصہ رہے گا۔
• ہر سال ایک فیصد لوگوں کی جانب سے کاربن کے اخراج سے تقریباً 10 لاکھ ونڈ ٹربائنوں کی بدولت کاربن کی پیدوار میں کمی کے ثمرات ختم ہو جاتے ہیں۔
• سیلاب میں ان ممالک میں سات گنا زیادہ لوگ مرتے ہیں جہاں امیر اور غریب کے درمیان بڑا فرق ہے، ان ممالک کے مقابلے میں جہاں لوگوں کی دولت کی سطح زیادہ مساوی ہے۔
• امیر ترین افراد کا 10 فیصد کاربن کے اخراج میں نصف (50 فیصد) حصہ ہے۔

یہ رپورٹ دبئی میں اقوام متحدہ کے 28 ویں کلائمیٹ سمٹ (کوپ 28) سے صرف دو ہفتے قبل سامنے آئی ہے۔ سربراہ اجلاس میں عالمی رہنما ماحولیاتی بحران کے اثرات پر تبادلہ خیال کرنے اور اس سے نمٹنے کے لیے اہداف مقرر کریں گے۔

اس جائزے میں شامل محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے مختلف آمدنی والے گروپوں کے وسائل استعمال کرنے کے طریقوں، ان کے طرز زندگی اور سرمایہ کاری کا مطالعہ کیا۔

مصنفین کا کہنا ہے کہ عدم مساوات اور ماحولیاتی بحران ’ایک دوسرے سے ناقابل علیحدگی کی حد تک جڑے ہوئے اور ’ایک دوسرے کی شدت میں اضافے کا سبب ہیں۔‘

ان حالات میں کہ جب امیر لوگ بدلتے ہوئے ماحول کے اثرات سے نمٹنے یا ان سے باہر نکلنے کی بہتر صلاحیت کے مالک ہیں، غریب لوگ، کمزور طبقات جیسا کہ خواتین اور مقامی لوگ اور کم آمدنی والے ممالک جن کا ماحولیاتی تبدیلی میں سب سے کم کردار ہے، وہ بدترین نتائج کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔

لگوری کے بقول: ’موحولیاتی تبدیلی وہ بوجھ ہے جسے مساوی طور پر تقسیم نہیں کیا گیا۔‘

’دیگر مقامات کی طرح ماحول کا بحران برطانیہ میں موجودہ عدم مساوات کو بڑھا رہا ہے اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ حکومت روائتی ایندھن سے پاک مستقبل کی طرف پیش قدمی تیز نہیں کرتی۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے اور سب سے زیادہ دولت رکھنے والے لوگ اس کے اخراجات برداشت کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ عدم مساوات اور آب و ہوا کی تبدیلی کے دوہرے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ’انتہائی امیر افراد پر زیادہ ٹیکس لگا کر ان کی جانب سے کاربن کا زیادہ اخراج روکا جائے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح اس آمدنی میں اضافہ ہوگا جس کی بہت ضرورت ہے۔ اس آمدن کو سماجی اخراجات کی کئی اہم ضروریات پر مرکوز کیا جا سکتا ہے جن میں صاف اور قابل تجدید توانائی کی طرف منصفانہ منتقلی کے ساتھ ساتھ ان برادریوں کی مدد کے اپنے بین الاقوامی وعدوں کو پورا کرنا شامل ہے جو پہلے ہی ماحولیاتی بحران کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔‘

اس سے قبل آکسفیم کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ اگر برطانوی حکومت نے ملک میں آلودگی پھیلانے والی سب سے بڑی کمپنیوں یعنی آئل کمپنیوں اور انتہائی امیر لوگوں پر ’معقول ٹیکسز‘ لگائے ہوتے تو وہ صرف 2022 میں 23 ارب پاؤنڈ تک جمع کر سکتی تھی۔

آکسفیم نے یہ بھی تخمینہ لگایا ہے کہ امیر ترین ایک فیصد افراد کی آمدنی پر عالمی سطح پر 60 فیصد ٹیکس لگانے سے کاربن کے اخراج میں برطانیہ کے مجموعی سے زیادہ کمی آئے گی اور روائتی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے لیے سالانہ 5.2 کھرب پاؤنڈ (6.4 کھرب ڈالر) جمع ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات