ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی سطح سے امریکہ میں درختوں کے حجم یا جنگلات کا بائیو ماس بڑھ گیا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشنز میں حال ہی میں شائع ہونے والی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کاربن کی سطح بلند ہونے سے امریکہ بھر میں 10 مختلف بڑے جنگلات میں درختوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔
اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح بڑھتی ہوئی درختوں کی تعداد زمین کے ماحولیاتی نظام کو گلوبل وارمنگ کے اثرات سے بچانے میں مدد کر رہی ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف برینٹ سوہنگن نے ایک بیان میں کہا: ’جنگلات ہمارے کاربن کے مجموعی اخراج کے تقریباً 13 فیصد کی شرح سے کاربن کو جذب کرکے فضا سے نکال کر رہے ہیں۔ جب کہ ہم اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں شامل کر رہے ہیں، اس سے ہم دراصل اپنے جنگلات کو بڑھا کر اسے فضا سے نکال رہے ہیں۔‘
گذشتہ مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران جنگلات میں درختوں کے حجم میں فی ہیکٹر اضافہ ہوا ہے۔
تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا یہ اضافہ بنیادی طور پر جنگلات کے انتظام اور ماضی میں زراعت جیسے زمینی استعمال یا دیگر ماحولیاتی عوامل جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں اضافے، نائٹروجن کے جمع ہونے یا موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کاربن فرٹیلائزیشن کہلائے جانے والے ایک نئے مظاہر قدرت کے ذریعے پودے فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کے فوٹو سنتھیسز کی شرح میں اضافہ ہو سکے۔
یہ ایک ایسا عمل جس کے ذریعے پودے سورج، پانی اور دیگر غذائی اجزا سے توانائی پیدا کرکے اپنی نشوونما کو تیز کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سوہنگن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ جب آپ فضا میں ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرتے ہیں تو یہ ہمیشہ کے لیے وہاں نہیں رہتی۔ اس کی ایک بڑی مقدار سمندروں میں شامل ہو جاتی ہے جب کہ اس کا باقی حصہ درختوں، گیلی زمینوں اور اس قسم کے علاقوں میں چلا جاتا ہے۔‘
محققین نے مطالعے میں نوٹ کیا کہ امریکہ میں جنگلات ہر سال تقریباً 70 سے 80 کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جو ملک کے کل کاربن کے اخراج کا تقریباً دسواں حصہ ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تقریباً 30 سال پرانے درختوں کے مقابلے میں امریکی جنگلات میں نئے درختوں کا تقریباً 20 سے 30 فیصد زیادہ بائیوماس موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ پرانے بڑے درختوں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بلند سطح کی وجہ سے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے بائیو ماس میں اضافہ بھی جاری ہے۔
سائنس دانوں نے مطالعے میں مزید لکھا: ’ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ بلند کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جنگلات کے حجم پر مضبوط اور مستقل طور پر مثبت اثر پڑا ہے۔‘
تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے یو ایس فارسٹ سروس فاریسٹ انوینٹری اینڈ اینالیسس پروگرام (یو ایس ایف ایس ایف آئی اے) کے تاریخی اعداد و شمار کا استعمال کیا تاکہ اس بات کا موازنہ کیا جا سکے کہ پچھلی چند دہائیوں میں جنگلات کا حجم کیسے بدلا ہے۔
محققین نے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا کہ 1970 اور 2015 کے درمیان جنگلات کے درختوں کے حجم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ کاربن کے اخراج میں واضح اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔
انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ جو درخت انسانوں نے لگائے تھے وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح پر اسی طرح ردعمل دیتے ہیں جس طرح قدرتی درخت۔
محققین کے مطابق یہ نتائج موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں درختوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
جیسا کہ ڈاکٹر سوہنگن نے کہا: ’کاربن فرٹیلائزیشن یقینی طور پر درخت لگانے، جنگلات کی کٹائی سے بچنے یا جنگلات میں کاربن کی سطح کو بڑھانے کی کوشش کے حوالے سے دیگر سرگرمیاں سے سستا پڑتا ہے۔
’ہمیں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہییں اور پرانے درختوں کو بچانا چاہیے کیونکہ بالآخر موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کے لیے شاید یہ ہماری بہترین کوشش ہو۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے پالیسی سازوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کے ہدف کو گلوبل وارمنگ کم کرنے کے سلسلے میں جنگلات کے کردار کے بارے میں بہتر حساب کتاب لگانے میں مدد مل سکتی ہے جس پر 2015 میں پیرس معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا۔
© The Independent