نظام شمسی سے باہر کی فضا میں پہلی بار کاربن ڈائی آکسائیڈ دریافت

اگرچہ نظام شمسی سے باہر کا یہ سیارہ زندگی کے لیے موزوں نہیں لیکن اس دریافت سے محققین کو دوسرے سیاروں پر زندگی کے متوقع آثار کے حوالے سے ایک امید ملی ہے۔

12 جولائی 2022 کو لوگ نیویارک کے ٹائمز سکوائر پر جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے جاری ہونے والی تصاویر کو فلما رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کی فضا میں پہلی بار کاربن ڈائی آکسائیڈ کی علامات کا پتہ لگا کر مہینوں پرانی جیمز ویب خلائی دوربین نے اپنی فہرست میں ایک اور بڑی سائنسی دریافت کا اضافہ کیا ہے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ اگرچہ نظام شمسی سے باہر کا یہ سیارہ زندگی کے لیے کبھی بھی موزوں نہیں ہوگا لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کامیاب دریافت سے محققین کو امید ملی ہے کہ اسی طرح کے مشاہدات پتھریلی اشیا پر کیے جا سکتے ہیں، جو زندگی کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سانتا کروز میں کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر اور ویب پروجیکٹ پر کام کرنے والے سینکڑوں افراد میں سے ایک نیٹلی بٹالہ نے ٹویٹ کیا: ’میرا پہلا خیال تھا! واہ، ہمارے پاس واقعی زمینی سائز کے سیاروں کی فضاؤں کا پتہ لگانے کا موقع ہے۔‘

700 نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارے کے گرد گھومنے والے گرم گیس کے بہت بڑے اس سیارے ’ڈبلیو اے ایس پی-39‘  کے متعلق ان کا مطالعہ جلد ہی ’نیچر‘ نامی جریدے میں شائع  ہوگا۔

فرانس کے جوہری توانائی کمیشن (سی ای اے) کے ایک فلکیاتی طبیعات دان پیئر اولیویر لاگیگ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے لیے اس سے سپر ارتھ (زمین سے بڑے لیکن نیپچون سے چھوٹے سیارے) یا یہاں تک کہ زمین کے سائز کے سیاروں پر مستقبل میں تحقیق کا ایک دروازہ کھلا ہے۔‘

ناسا نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا پتہ لگانے سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ’ڈبلیو اے ایس پی-39‘ کیسے بنا۔ یہ سیارہ، جو ہر چار زمینی دنوں میں اپنے ستارے کے گرد ایک بار چکر لگاتا ہے، مشتری کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے، لیکن اس کا قطر 1.3 گنا بڑا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے مدار اور  وسیع کرۂ فضائی کی فریکوئنسی کی وجہ سے ڈبلیو اے ایس پی-39 ویب کے جدید ترین انفراریڈ سنسر کے ابتدائی امتحان کے لیے موزوں ترین امیدوار ہے، جسے این آئی آر سپیس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ہر بار جب یہ سیارہ اپنے ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے تو یہ روشنی کی تقریباً ناقابل تصور مقدار کو روک دیتا ہے، لیکن سیارے کے کناروں کے ارد گرد روشنی کی ایک چھوٹی سی مقدار اس کرۂ فضائی سے گزرتی ہے۔

ویب کا انتہائی حساس این آئی آر سپیس روشنی پر ماحول کی وجہ سے  ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کا پتہ لگا سکتا ہے، جس سے سائنس دان اس کی گیس کی ساخت کا تعین کر سکتے ہیں۔

ہبل اور سپیٹزر دوربینوں نے پہلے ہی وی اے ایس پی-39 کی فضا میں پانی کے بخارات، سوڈیم اور پوٹاشیم کا پتہ لگا لیا تھا، لیکن اب ویب اور اس کے این آئی آر سپیس آلات کی بدولت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے محقق ظفر رستمکولوف نے ناسا کی پریس ریلیز میں کہا: ’نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کی سائنس میں ایک خاص حد کو عبور کرنا ایک خاص لمحہ تھا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق