کیا واقعی بادل پھٹنے کی پیش گوئی ممکن نہیں؟

پاکستان میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچائی ہے جنہیں بادل پھٹنے کا نام دیا گیا ہے۔ کیا ایسے واقعات سے بچا جا سکتا ہے؟

بونیر میں سیلاب کے بعد 18 اگست 2025 کو امدادی کارکن اور مقامی افراد ملبے تلے دبے افراد کو تلاش کر رہے ہیں (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر سمیت مختلف اضلاع میں 15 اگست سے 18 اگست کے درمیان شدید بارشوں اور سیلابی صورت حال کی وجہ سے مالی و جانی نقصان ہوا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک خیبر پختونخوا میں سیلابی صورت حال کی وجہ سے 393 اموات ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ 234 اموات بونیر میں واقع ہوئی ہیں۔

بونیر، صوبائی اور باجوڑ میں طوفانی بارش اور تباہ کن سیلاب کے بارے میں سوشل میڈیا سمیت پاکستانی میڈیا میں ’کلاؤڈ برسٹ‘ یعنی بادل پھٹنے کا نام دیا جاتا ہے۔

ان خبروں میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اضلاع میں بادل پھٹنے کے نتیجے میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی ہے جبکہ روئٹرز جیسے بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے بونیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہاں پر ایک گھنٹے میں 150 ملی میٹر بارش ہوئی ہے اور یہ بارش بادل پھٹنے کے نتیجے میں ہوئی ہے۔

ماہرینِ موسمیات بادل پھٹنے کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ ایک گھنٹے یا اس سے کم وقت میں کسی جگہ سو ملی میٹر (چار انچ) یا اس سے زیادہ بارش ہو۔ تاہم ابھی تک پاکستان کے محکمہ موسمیات نے صوبے کے کسی بھی ضلع میں بادل پھٹنے سے بارش یا سیلاب کی تصدیق نہیں کی۔

محکمہ موسمیات پشاور مرکز کے عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بونیر میں محکمہ موسمیات کا کوئی موسمیاتی سٹیشن نہیں ہے جہاں بارش کی مقدار کو ناپا جا سکے۔

اب یہ خبریں تو چل رہی ہیں لیکن ساتھ ہی سوشل میڈیا پر یہ بھی زیرِ بحث ہے کہ کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کی پیش گوئی ممکن نہیں ہے بلکہ بادل اچانک پھٹتے ہیں اور اس سے سیلاب آ جاتا ہے۔

اسی معاملے کو پرکھنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین اور بعض تحقیقی مقالوں کا مطالعہ کیا ہے تاکہ جان سکے کہ واقعی بادل پھٹنے کی پیش گوئی ممکن نہیں ہے یا اس جدید دور میں یہ ممکن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور یونیورسٹی کے سینٹر فار ڈیزاسٹر پریپیئرڈنس کے پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد جان نے اسی حوالے سے ایک مختصر رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنے کی پیش گوئی اس جدید دور میں بالکل ممکن ہے۔

یہ رپورٹ جو Debunking the myth: cloud bursting forecasting is not possible کے عنوان سے جاری کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، ’سچ یہی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور وسائل لگانے سے کلاؤڈ برسٹ کی پیش گوئی ممکن ہے اور کلاؤڈ برسٹ سے نقصانات سائنس کی محدودیت نہیں بلکہ جدید نظام کی کمی ہے۔‘

جدید پیش گوئی نظام کے بارے میں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے Nowcasting کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مختصر وقت میں موسمی حالات کی پیش گوئی ممکن بنائی جا سکے۔

اس پیش گوئی کے لیے رپورٹ کے مطابق خودکار وارننگ سسٹم کا نصب کرنا ضروری ہے جو روایتی موسمیاتی پیش گوئی کے نظام سے بہتر ہوتا ہے۔

خودکار پیش گوئی نظام کسی علاقے میں فضا میں ہوا کا دباؤ، نمی، درجہ حرارت اور ہوا کی رفتار کا ڈیٹا متعلقہ ادارے کو خودکار طریقے سے بھیج دیتا ہے۔

اسی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ خودکار وارننگ نظام کسی پہاڑی میں بلائنڈ سپاٹس یعنی جہاں روایتی پیش گوئی نظام نہ پہنچ سکے، اسی علاقے کو بھی کور کرتا ہے اور وہاں موسمی تبدیلی کا ڈیٹا بھیج دیتا ہے۔

ناؤکاسٹنگ کیا ہے؟

ناؤ کاسٹنگ موسمیات کی ایک اصطلاح ہے، جو Now یعنی ابھی اور Forecasting یعنی پیش گوئی کو ملا کر بنائی گئی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کا فوری طور پر موسمی پیش گوئی، جو عموماً اگلے چند منٹ سے لے کر دو سے تین گھنٹوں کے لیے ہوتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس دوران کہاں بارش یا برفباری ہو گی اور کتنی دیر تک رہے گی۔

اس کے برخلاف عام موسمی پیش گوئی میں ماہرین دنوں یا ہفتوں کے حساب سے موسم کا اندازہ لگاتے ہیں، جو بڑے پیمانے پر موسمیاتی ماڈلز اور ڈیٹا پر مبنی ہوتا ہے۔

ناؤکاسٹنگ چار ذرائع استعمال کرتی ہے: 

  • ریڈار ڈیٹا: ڈوپلر ریڈار کے ذریعے بادلوں کی حرکت، شدت اور بارش کے امکانات کا حقیقی وقت (real-time) میں پتہ چلایا جاتا ہے۔
  • سیٹلائٹ تصاویر: بادلوں کی تشکیل، سمت اور بڑھنے کے امکانات دیکھے جاتے ہیں۔
  • زمینی سٹیشن: ہوا، دباؤ، درجہ حرارت اور نمی کی فوری پیمائش۔
  • کمپیوٹر ماڈلز اور مصنوعی ذہانت بہت ہی مختصر وقت کے لیے بارش، آندھی، طوفان یا بادل پھٹنے جیسے واقعات کا اندازہ لگانے کی کوشش۔

ان ماڈلز کو استعمال کر کے شدید موسمی واقعات جیسے بادل پھٹنے، آندھی، ژالہ باری، وغیرہ کا بہتر انتباہ جاری کیا جا سکتا ہے۔

البتہ ناؤکاسٹنگ طویل مدتی پلاننگ کے لیے قابلِ اعتماد نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ بہت مہنگا سسٹم ہے اور اس کے لیے اچھے خاصے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہمارے محکمۂ موسمیات کے پاس فی الحال اتنے وسائل نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا کے علاقوں دیر، سوات سمیت مختلف اضلاع میں رپورٹ کے مطابق مینول طریقے سے چلنے والا پیش گوئی نظام نصب ہے جو ریئل ٹائم میں ڈیٹا نہیں بھیجتا۔

رپورٹ کے مطابق، ’سوات میں 27 جون کو شدید بارشیں ہوئیں جن میں مختلف افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے، یا ابھی حالیہ سیلاب کی پیش گوئی مینول نصب پیش گوئی نظام سے ممکن نہیں ہے۔‘

پاکستان میں موسم کی پیش گوئی کا نظام کیسا ہے؟

پشاور یونیورسٹی کے سینٹر فار ڈیزاسٹر پریپیئرڈنس اینڈ مینجمنٹ کے پروفیسر، جنہوں نے رپورٹ مرتب کی ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مردان، ڈیرہ اسماعیل خان اور چیراٹ میں جدید موسمیاتی نظام نصب ہے۔

تاہم مشتاق احمد خان کے مطابق ان نظاموں کی رینج اتنی نہیں ہے کہ وہ دیگر اضلاع کو بھی کور کر سکیں، جبکہ صوبے کے 15 اضلاع میں ویدر سسٹم نصب ہیں۔

مشتاق احمد جان نے بتایا، ’جتنے ویدر سسٹم اور ریڈار نصب ہیں، ان سے پورے صوبے کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ خیبر پختونخوا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نقصانات کا خدشہ بھی زیادہ ہے، اس لیے یہاں مزید سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اسی میں ایک اور مسئلہ مشتاق احمد کے مطابق، یہ ہے کہ بعض اوقات بارش کے دوران یہ نظام بجلی کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے، جس سے ڈیٹا بھیجنے میں مشکل درپیش آتی ہے، جبکہ پہاڑی علاقوں میں تو بہت کم ہی ویدر سسٹم موجود ہے۔

رینج کی کمی کے حوالے سے مشتاق احمد نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جب چترال سے دریا نورستان کی طرف نکلتا ہے تو جب تک سیلابی ریلا چارسدہ پہنچتا ہے، ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ سیلابی صورت حال کیا ہے۔‘

ارلی وارننگ سسٹم کے حوالے سے مشتاق احمد نے بتایا کہ اس کے لگانے پر خرچہ بھی اتنا نہیں آتا بلکہ یہ تقریباً ایک کروڑ روپے میں مل جاتا ہے، لیکن اس سے اربوں روپوں کے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔

جدید ڈوپلر ریڈار

مشتاق احمد کے مطابق اب مینول ویدر سسٹم کے مقابلے میں ڈوپلر ریڈار جدید ہے اور ریئل ٹائم میں ڈیٹا بھیج دیتا ہے اور دو سے تین گھنٹے پہلے متعلقہ اداروں کو خبردار کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد میں ڈوپلر ریڈار نصب ہے، لیکن اس سے خیبر پختونخوا کور نہیں ہو سکتا، جبکہ ڈوپلر ریڈار پر خرچہ زیادہ آتا ہے، تاہم اب اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔

مشتاق احمد کے مطابق، ’ڈوپلر ریڈار سے ہوا کی رفتار، نمی، بارش زیادہ ہو گی یا کم، ہوا کا رخ اور دیگر چھوٹی سے چھوٹی تفصیلات کی پیش گوئی ممکن ہے، اور یہ خودکار طریقے سے ڈیٹا بھیج دیتا ہے۔‘

کیا بونیر یا دیگر اضلاع میں کلاؤڈ برسٹ ہوا ہے؟

کلاؤڈ برسٹ دراصل ایک مخصوص جگہ پر ایک گھنٹے میں زیادہ بارش برسنے کو کہتے ہیں، جبکہ عام تاثر یہ بنا ہوا ہے کہ کوئی بادل ایک ساتھ نیچے گرتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب مخصوص علاقے میں 100 ملی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ہو جائے تو یہ کلاؤڈ برسٹ کہلاتا ہے۔

بونیر کے بارے میں مشتاق احمد نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی تحقیق کے لیے وہاں سیلاب کے دن بارش کا ڈیٹا نکالنے کی کوشش کی، لیکن ہمیں نہیں ملا۔ پھر امریکی خلائی ادارے ناسا کی سیٹلائٹ سے ڈیٹا مل گیا۔ ایک ڈیٹا جو بونیر کا ہمیں ملا، ناسا کے مطابق 15 اگست کو 109 ملی میٹر بارش ہوئی تھی، جبکہ قادر نگر اور بیشونئی کے درمیان 135 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی تھی، اور اسی سے ہم اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ یہ کلاؤڈ برسٹ تھا۔‘

تاہم مشتاق احمد جان کے مطابق چونکہ علاقے میں ویدر سسٹم یا ریڈار نہ ہونے کی وجہ سے ڈیٹا محدود اور ناسا کی ڈیٹا سے یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ جو 109 سے 135 ملی میٹر بارش ایک گھنٹے میں ریکارڈ ہوئی ہے یا اس کا دورانیہ کتنا تھا لیکن مختلف اداروں کے سٹیلائٹس کے ڈیٹا میں فرق آرہا ہے۔

اسی طرح مشتاق کے مطابق کینیڈا کے سنٹر فار ہایڈرومیٹرولوجی اینڈ ریموٹ سینسنگ کے ڈیٹا کے مطابق 14 آگست سے 17 آگست کے دوران گوکند، گل بانڈئی کے علاقوں میں 95 ملی میٹر جبکہ ملک پور میں بارش 40 سے 50 ملی میٹر ڈیٹا میں دیکھا جا سکتا ہے۔ 

اسی طرح بونیر اور سوات کے بارڈر پر پہاڑی علاقوں پر 14 آگست سے 17 آگست تک ناسا ڈیٹا کے مطابق 683 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ 
 
مشتاق نے بتایا، ‘ڈیٹا کی محدودیت کی وجہ سے اس کی ہم مزید تجزیہ کریں گے، تاکہ جان سکے کہ اتنی بڑی پیمانے میں تباہی اور پانی کیسے آیا ہے اور پھر بالکل مزید دعوے سے ہم کہ سکیں گے کہ کلاؤد برسٹ تھا یا نہیں۔’

اسی طرح، مشتاق احمد کے مطابق ’یہ سیلاب بھی مختلف وادیوں میں آیا ہے۔ ہم نے تحقیق سے یہ پتہ لگایا ہے کہ کلاؤڈ برسٹ 30 مربع کلومیٹر علاقے کو متاثر کرتا ہے اور اسی وجہ سے اس نے بونیر میں پہاڑی سلسلے کے علاقوں کو متاثر کیا ہے۔‘

مشتاق احمد نے بتایا کہ ’یہ بات واضح ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس قسم کی آفات سے بچنے کے لیے حکومت کو جدید پیش گوئی نظام لگانے کی ضرورت ہے، جس سے مختلف علاقوں کو کور کیا جا سکے اور وہاں عوام کو پیشگی موسم کی اطلاع مل سکے۔

سیلاب اتنے بڑے پتھر کیسے اور کہاں سے لایا؟

مشتاق احمد نے بتایا کہ میں نے بیشونئی گاؤں کا دورہ کیا ہے اور میں حیران ہوں کہ اتنے بڑے پتھر کہاں سے اور کیسے سیلاب بہا کر لائے، اور اسی پر اب ہم تحقیق کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا، ’حکومتی سطح پر کسی نے بھی ابھی تک بونیر اور دیگر جگہوں میں سیلاب اور بارشوں کی تکنیکی رپورٹ مرتب نہیں کی، لیکن ہم اس پر کام کر رہے ہیں کیونکہ مفروضہ یہی ہے کہ یہ وادیاں ایکٹیو سیلابی علاقے ہیں۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق