سپریم کورٹ کی صدر ٹرمپ کو محکمہ تعلیم ختم کرنے کی اجازت

امریکی سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ محکمہ تعلیم کے سینکڑوں ملازمین کو برطرف کرنے کی کارروائی آگے بڑھا سکتے ہیں، جو اس ادارے کو تحلیل کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 14 جولائی 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے سٹیٹ ڈائننگ روم میں وائٹ ہاؤس فیتھ آفس لنچ کے دوران خطاب کر رہے ہیں (اے ایف پی)

امریکی سپریم کورٹ نے پیر کو کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ محکمہ تعلیم کے سینکڑوں ملازمین کو برطرف کرنے کی کارروائی آگے بڑھا سکتے ہیں، جو اس ادارے کو تحلیل کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

ایک مختصر حکم نامے میں، ججوں نے میساچوسٹس کے ایک جج کا فیصلہ معطل کر دیا جس نے انتظامیہ کو دہائیوں پرانی ایجنسی کے 1300 سے زیادہ ملازمین کو برطرف کرنے سے روکا تھا۔

یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک اور کامیابی ہے کیونکہ صدر انتظامی احکامات کے ذریعے اپنے اختیار کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے، سپریم کورٹ نے ٹرمپ کو وفاقی ورک فورس کو کم کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے عمل کو آگے بڑھانے کی اجازت دی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے جواب میں، وزیر تعلیم لنڈا میکموہن نے کہا کہ وہ اس  فیصلے سے بہت ’خوش‘ ہیں۔

میک موہن نے کہا: میرے خیال میں یہ امریکی تعلیم کے مستقبل کے لیے ایک حقیقی فتح ہے، اور میں سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے سے بہت خوش ہوں۔

 ’اس نے صرف اس حقیقت کو دوبارہ واضح کیا کہ امریکہ کا صدر، واضح طور پر، انتظامی شاخ کا سربراہ ہوتا ہے اور عملے کی سطح، انتظامی تنظیم وغیرہ پر حتمی اختیار اسی کے پاس ہوتا ہے۔ُ

ایمرجنسی ڈاکیٹ پر کسی بھی حکم نامے کی طرح، ججوں نے پیر کو اپنے فیصلے کی کوئی وجہ فراہم نہیں کی۔

عدالت کے تین لبرل ججوں نے اکثریتی ججز کے فیصلے سے اختلاف کیا اور جج سونیا سوٹومایور نے قدامت پسند ججز کی اکثریت کو اس فیصلے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

سوٹومائر نے لکھا: ’ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم امتناعی کو ہٹانے سے بے پناہ نقصان ہوگا، تعلیمی مواقع میں تاخیر یا انہیں رد کیا جائے گا، اور طلبا کو وفاقی وسائل کے بغیر امتیازی سلوک، جنسی زیادتی، اور دیگر شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑے گا جن کا کانگریس نے ارادہ کیا تھا۔‘

سوٹومائر نے مزید لکھا: ’صدر کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ قوانین کو وفاداری سے نافذ کیا جائے، نہ کہ انہیں ختم کرنے کے لیے نکل پڑیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ اختیارات کی علیحدگی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

مارچ میں، ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس میں مک میہن کو محکمہ تعلیم کو ’ختم‘ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ انہوں نے اور دیگر ریپبلکنز نے دلیل دی ہے کہ ایجنسی کو ریاستی سطح کی تعلیم پر بہت زیادہ اختیار حاصل ہے۔

محکمہ تعلیم سکول کے نصاب، داخلے یا گریجویشن کی ضروریات، تدریسی منصوبوں یا سرکاری سکولوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں میں بھرتی کو کنٹرول نہیں کرتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بنیادی طور پر مالی کردار ادا کرتا ہے، K-12 سکولوں کو فنڈنگ فراہم کرتا ہے اور کم آمدنی والے طلبا کے لیے تعلیمی امداد فراہم کرتا ہے۔ مجموعی طور پر، محکمہ کی فنڈنگ سکول کی فنڈنگ کا تقریباً آٹھ فیصد بنتی ہے۔

یہ سکولوں میں شہری حقوق کے قوانین کو بھی نافذ کرتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وفاقی فنڈنگ حاصل کرنے والے ادارے ان قوانین کی پاسداری کر رہے ہیں جن میں طلبا کو نسل، جنس، صنف، جنسی رجحان، اور دیگر کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے بچانے والے قوانین شامل ہیں۔

اگرچہ صدر کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہے تاکہ ایجنسی کو مکمل طور پر بند کیا جا سکے، چونکہ اسے 1979 میں کانگریس کے ایک ایکٹ کے طور پر بنایا گیا تھا، وہ بنیادی طور پر ایجنسی کو بے اثر کر کے ایسا کر سکتے ہیں۔

نیویارک کی قیادت میں ریاستوں کے ایک اتحاد نے انتظامیہ پر محکمہ کے 1,378 ملازمین کی تعداد کم کرنے کی کوشش کرنے پر مقدمہ دائر کیا۔ 

مئی میں، ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج میونگ جون نے ریاستوں کے حق میں فیصلہ دیا، اور کہا کہ انتظامیہ بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے ذریعے کانگریس کی منظوری کے بغیر محکمے کو مؤثر طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ 

لیکن سالیسٹر جنرل جان ڈی سائر نے دلیل دی کہ یہ افرادی قوت میں کمی محکمے کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کا حصہ نہیں تھی۔ سائر نے کہا کہ اگر حکومت کو کارکنوں کی تنخواہیں ادا کرنے پر مجبور کیا گیا تو اسے بھی مستقل نقصان ہوگا۔ بالآخر، سپریم کورٹ نے اتفاق کیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ