امریکی سپریم کورٹ نے تاریخ میں پہلی بار اپنے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس میں کیا لکھا ہے اور یہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق سے کتنا مختلف ہے؟
امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کی سب سے اہم بات اپنے اخلاقی وجود کا تحفظ اور جواب دہی کا احساس ہے۔ اس کی شان نزول ہی خود پر ہونے والے تنقید کو بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ضابطے میں لکھا ہے کہ وہ یہ ضابطہ تحریری طور پر اس لیے جاری کر رہی ہے کہ لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی کہ امریکی سپریم کورٹ کسی اخلاقی ضابطے کی پابند نہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق 2009 میں جاری کیا گیا تھا اور اس کی شان نزول میں ایسی کوئی بات بیان نہیں کی گئی تھی۔ یہ بس ایک ضابطہ تھا جسے آئین کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کرنا تھا تو اس نے جاری کر دیا۔
ہو سکتا ہے پاکستان سپریم کورٹ کے بارے میں عوامی سطح پر کوئی ایسی ’غلط فہمی‘ نہ پائی جاتی ہو جیسی امریکی سپریم کورٹ کے بارے امریکہ میں پائی جاتی ہے یا پھر شاید امریکہ میں اسے معیوب نہ سمجھا جاتا ہو کہ اپنے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمی کو تسلیم کیا جائے اور پھر اس کا ازالہ کیا جائے۔
امریکی ضابطہ اخلاق کے ابتدائیے میں لکھا ہے کہ اس غلط فہمی کے خاتمے کے لیے یہ ضابطہ اخلاق جاری کر رہے ہیں اور یہ کوئی نئے اصولوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ہم کامن لا کے جن اخلاقی ضابطوں پر عمل پیرا ہیں انہی کو تحریری شکل دے رہے ہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق کو بھی عمومی اخلاقیات اور روایات کا مجموعہ قرار دیا گیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق امریکی سپریم کورٹ کے ججوں نے خود جاری کیا ہے اور آخر میں اس کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کا ضابطہ اخلاق سپریم جوڈیشل کونسل نے جاری کیا ہے اور یہ اس کے سیکریٹری ڈاکٹر فقیر حسین کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔ یعنی امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک عہد اجتماعی کا رنگ غالب ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق پر ایک حکم نامے کا رنگ غالب ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق واضح ہے اور اس پر ایک قانون کا سا گمان ہوتا ہے جس میں ججوں سے متعلق ایک ایک چیز کو وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے، جب کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق عمومی اخلاقی اصول طے کرتا ہے اور زیادہ جزئیات میں نہیں جاتا۔
امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق کے مطالعے سے لگتا ہے آپ قانون کی کوئی دستاویز پڑھ رہے ہیں جو اپنے متن کی شرح میں بہت واضح ہے جب کہ پاکستانی ضابطہ اخلاق سے بعض مقامات پر ایسے لگتا ہے جیسے آپ آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 جیسی کسی چیز کا مطالعہ کر رہے ہیں جہاں بہت کچھ تشریح طلب ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 53 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور صرف چھ جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ اس سے امریکی ضابطہ اخلاق پر یہ تنقید ہو رہی ہے کہ یہ دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا مجموعہ ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں 11 مقامات پر ’should‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور سات جگہوں پر ’must‘ کا لفظ لکھا ہے۔ یعنی اگر ’should‘ کے استعمال سے ’دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز‘ کا تاثر جاتا ہے تو پاکستانی دستاویز میں دوستانہ اور میٹھی میٹھی تجاویز کا عنصر قدرے کم ہے۔
سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کا ذکر دونوں میں ہے، عوامی اجتماعات پر جانے کے بارے میں البتہ امریکی ضابطہ اخلاق میں زیادہ تفصیل موجود ہے۔
اسی طرح امریکی ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ قانون سے متعلق امور پر جج لیکچر بھی دے سکتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے۔ یعنی قانونی امور پر لکھنے کے لیے اس کا ریٹائر ہونا ضروری نہیں۔ پاکستانی ضابطہ اخلاق میں ایسی کوئی بات نہیں۔ یہاں ایسا کلچر بھی نہیں ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہاں جج صاحبان کم ہی قانونی امور پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں لیکچر بھی شاید صرف جناب قاضی فائز عیسیٰ نے دیے ہیں ورنہ ایسی کوئی رسم بھی یہاں نہیں ہے۔ البتہ جج صاحبان بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں کے تعلیمی اداروں میں لیکچر اور خطاب کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
امریکہ میں ججوں کو فنڈ ریزنگ کی مہم میں مشروط شرکت کی اجازت ہے جب کہ پاکستان کے ضابطہ اخلاق میں اسے زیر بحث نہیں لایا گیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ڈیم فنڈ کے بعد البتہ اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ضابطہ اخلاق اس بارے میں رہنمائی کرے کہ اس کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں۔
امریکی ضابطہ اخلاق میں کتاب اور علم کو بطور خاص موضوع بنایا گیا ہے۔ شاید یہ معاشرے کے عمومی ماحول کا فرق ہو۔ وہاں لکھا ہے کہ جج کسی کمرشل تقریب یا کسی کی پروموشن کے لیے کسی کاروباری تقریب میں نہیں جائے گا لیکن اگر اس کی اپنی کتاب کہیں برائے فروخت رکھی ہو تو اس تقریب میں جا سکتا ہے۔ یعنی وہاں جج دوران ملازمت بھی کتاب لکھ سکتا ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں البتہ بعض مقامات پر ادبی اور شاعرانہ اسلوب میں بات کی گئی ہے یا یوں کہہ لیں کہ انگریزی بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہے۔ لیکن امریکی ججوں نے اپنے ضابطہ اخلاق میں سادہ، سیدھے، واضح اور دوٹوک انداز سے بات لکھی ہے۔
پاکستانی سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں لکھا ہے کہ انصاف کرتے ہوئے جج کو وہ شہرت مل جاتی ہے جو اس کے لیے اچھی ہوتی ہوتی ہے اس لیے اسے اس سے زیادہ شہرت کی طلب نہیں کرنی چاہیے۔ یہ چیز امریکی ضابطے میں نہیں ہے۔ وہ اس بارے میں خاموش ہے۔ شاید یہ بھی ماحول کا فرق ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی ضابطے میں جج کے لیے خدا خوفی کی شرط موجود ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ اختیارات کا مالک اللہ ہے اس لیے انصاف کا ماخذ بھی اللہ ہی کی ذات ہے۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کا ضابطہ اخلاق تو اپنی روایات کے باب میں کامن لا کا ذکر کرتا ہے، ہماری سپریم کورٹ کے ضابطہ اخلاق میں روایات کے حوالے سے کیا مراد ہے؟
کیا یہ بھی کامن لا اور نوآبادیاتی دور غلامی کی روایات ہیں یا ان کی تعلق اسلام کی عدالتی روایات سے ہے؟ اسلام کی روایات سے ہے تو کیا وجہ ہے کہ فیصلوں میں کامن لا کے حوالے تو موجود ہیں لیکن اسلامی فقہ سے کم ہی کوئی حوالہ دیا جاتا ہے؟ آداب القاضی کب اس ضابطے کا حصہ بنیں گے؟
امریکی ضابطہ اخلاق پر ایک بڑی تنقید یہ ہو رہی ہے کہ اس میں عمل درآمد کی شقیں موجود نہیں ہیں۔ یعنی یہ نہیں بتایا گیا کہ ضابطہ اخلاق کی کس شق پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ان پر عمل درآمد یقینی کیسے بنایا جائے، ’should‘ والی شقوں پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا اور ’must‘ والی شقوں کی حیثیت کیا ہو گی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ عمل درآمد کی شقیں پاکستانی ضابطہ اخلاق میں بھی موجود نہیں ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔