پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے حال ہی میں اعلان کردہ احتجاجی تحریک کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلافات گہرے ہوتے نظر آئے ہیں کیوں کہ اس تحریک کی حکمت عملی پر جماعت وابستہ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔
عمران خان کی حراست کو پانچ اگست 2025 کو دو سال مکمل ہو رہے ہیں اور اسی حوالے سے پارٹی نے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اتوار کو 90 روزہ ’آر یا پار‘ سیاسی تحریک شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد عوام کے آئینی حقوق کا حصول ہے۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عمران خان کہتے ہیں پانچ اگست، جبکہ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں 90 دن، کیونکہ وہ وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
فیصل کریم کنڈی کے بقول ’علی امین چاہتے ہیں کہ احتجاج نہ ہو اور حالات ان کے حق میں رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 90 دن کی تحریک کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور چاہنے والوں کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ بن گئی ہے کہ پی ٹی آئی رہنما خود ہی ایک صفحے پر متحد دکھائی نہیں دے رہے اور اس معاملے پر جماعت کے اندر سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
پنجاب سے تحریک انصاف کی رہنما عالیہ حمزہ نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کہا کہ ’وزیراعظم خان کی رہائی کے لیے کس لائحہ عمل کا کل یا آج اعلان ہوا ہے؟ تحریک کہاں سے اور کیسے چلے گی؟ پانچ اگست کے مقابلے میں 90 دن کا پلان کہاں سے آیا ہے؟‘
دوسری جانب سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’عمران خان نے تحریک کو پانچ اگست کے عروج سے جوڑا ہے، جبکہ 90 دن کی بات علی امین گنڈا پور کی اپنی ذاتی رائے ہے یہ جماعت کا فیصلہ نہیں ہے۔‘
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ ’پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے ہم نے بانی پی ٹی آئی کے نظریے سے جڑے رہنا ہے۔‘
اسی طرح شیر افضل مروت نے سما ٹی وی کے پروگرام میں موجودہ صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’محترمہ علیمہ خان صاحبہ نے ایک سال میں پی ٹی آئی کا ڈھانچہ تبدیل کر دیا ہے، پی ٹی آئی میں انتشار، منافقت اور بدنیتی ہے، پارٹی نے پی ٹی آئی کی کشتی ڈبو کر رکھ دی ہے۔
’ایسے حالات میں مجھے کوئی تحریک چلتی نظر نہیں آ رہی نہ کامیابی نظر آ رہی ہے۔‘
سیاسی ماہرین تحریک انصاف کی اندرونی چپقلش کو کیسے دیکھتے ہیں؟
پاکستان تحریک انصاف پر گہری نظر رکھنے والے صحافی حیدر شیرازی کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے احتجاج کا اعلان خود عمران خان نے کیا ہے جبکہ 90 دن کی ڈیڈ لائن کا انہوں نے ’بالکل نہیں کہا۔‘
صحافی حیدر شیرازی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے کہا تھا کہ پانچ اگست تحریک کا عروج ہو گا اور وہ یہ خود لیڈ کریں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی کے اب کئی دھڑے بن چکے ہیں۔ 90 دن کی تحریک کا اعلان پارلیمانی جماعت نے کیا ہے جو جماعت کا ایک حصہ ہے جبکہ صوبائی عہدیدار، خیبرپختونخوا میں جنید اکبر اور پنجاب میں عالیہ حمزہ، بلوچستان اور سندھ کے الگ تنظیمی عہدے دار ہیں، اس کے علاوہ تحریک انصاف وکلا گروپ ہے ان سے پارلیمانی جماعت نے مشاورت کیے بغیر تحریک کا اعلان کیا ہے۔
’بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے خود کہا تھا کہ یہ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہے۔ پارلیمانی پارٹی تحریک انصاف جماعت کی ایک شاخ ہے وہ اکیلے سب فیصلے نہیں لے سکتے۔ اس وقت تحریک کے فیصلے علی امین گنڈا پور، بیرسٹر گوہر، شبلی فراز اور عمر ایوب کر رہے ہیں۔‘
ایڈوکیٹ فیصل چوہدری اس سارے معاملے پر کہتے ہیں کہ موجودہ قیادت میں کوئی تحریک چلانے کی سکت نہیں ہے اور 90 دن کا پلان کہاں سے آیا کچھ پتہ نہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ تو کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی ایسی قیادت ہے جو حکمت عملی بنا کر اس پہ عمل کر سکے، کیونکہ یہ سیاسی لوگ نہیں ہیں۔
’یہ بات میں نے عمران خان سے ملاقات میں بھی بتائی کہ آپ کی لیڈرشپ میں تحریک چلانے کی سکت نہیں ہے تو اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’بندے میسر ہی نہیں ہیں۔‘ تو میں نے ان سے کہا کہ بندے تو پھر لانے پڑتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیئر پارلیمانی صحافی آصف بشیر چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے لوگ احتجاج میں نہیں نکلے، آخری کال نومبر میں آئی تھی تو اس وقت جو ہوا تھا اس کے بعد اب کال دی گئی ہے۔‘
آصف بشیر چوہدری کا کہنا ہے کہ ’یہ جو احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے یہ صوبائی سطح پر اور ضلع کی سطح پر ہو گا۔ اس میں اسلام آباد سارے قافلے آنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’علی امین گنڈا پور نے سینیٹر مرزا آفریدی کے فارم ہاؤس پر پارلیمانی اجلاس رکھا لیکن پنجاب سے عالیہ حمزہ کو بلایا ہی نہیں گیا اور وہاں پر کہا گیا کہ عالیہ حمزہ مصروف ہیں جس پر عالیہ حمزہ نے کہا کہ مجھے پتہ ہی نہیں میں مصروف ہوں اور نہ مجھے بلایا گیا۔‘
صحافی آصف بشیر کے مطابق ’عمران خان نے پانچ اگست کا کہا لیکن علی امین گنڈا پور 90 دن کی تحریک کی بات کر رہے ہیں تاکہ اس دوران وہ اپنی کے پی کے کی حکومت کو بچا سکیں۔ کیونکہ مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد اب کے پی میں بھی حکومت تبدیلی کی بات ہو رہی ہے۔ اس لیے انہوں نے 90 دن کی بات کی ہے۔‘
کیا عمران خان کے صاحبزادے تحریک میں شریک ہوں گے؟
اگست میں ہونے والے احتجاج میں ممکنہ طور پر عمران خان کے صاحبزادوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔
اس معاملے پر ترجمان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم نے بیان دیا کہ ’قاسم اور سلیمان اپنے والد سے ملاقات کے مقصد کے ساتھ پاکستان آ رہے ہیں اور اگر اس دوران کوئی احتجاج منعقد ہوا تو وہ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔‘
جبکہ سلمان اکرم راجہ نے قاسم اور سلیمان کی متوقع آمد پر کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کب آئیں گے۔
تجزیہ کار و صحافی عامر الیاس رانا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کی اندرونی چپقلش کی وجہ عمران خان خود ہیں وہ ایک گروپ کو کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرو دوسرے گروپ کو کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پر چڑھائی کر دو۔‘
عامر الیاس رانا کہتے ہیں کہ ’عمران خان نے بہت سوچ سمجھ کر پانچ اگست کی تاریخ دی ہے پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کو بھی چھ سال ہو جائیں گے۔