تقسیم ہند: وہ مسلمان، ہندو اور سکھ جنہوں نے درجنوں زندگیاں بچائیں

’آزادی‘ اور ’تقسیم‘ کے امتزاج کے فوراً بعد بدترین فسادات پھوٹ پڑے اور جان بچانے کی خاطر بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی جس نے بعد ازاں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا مقام حاصل کیا۔

دو اگست 2022 کی اس تصویر میں انڈین شہر امرتسر میں ایک بھارتی خاتون امرتسر کے پارٹیشن میوزیم میں 1947 میں تقسیم ہند کے دوران ہونے والی نقل مکانی کی تصاویر دیکھتے ہوئے(اے ایف پی)

’15 اگست 1947 سے ہندوستان میں دو آزاد مملکتیں قائم کی جائیں گی جو بالترتیب انڈیا اور پاکستان کے نام سے جانی جائیں گی۔‘

یہ برطانوی پارلیمان سے منظور شدہ اور پھر تاج برطانیہ کی رضامندی سے قانون کی شکل اختیار کرنے والے انڈین انڈپینڈنس ایکٹ 1947 کے 30 ویں باب کی شق ایک ہے، جس کے تحت 15 اگست 1947 کو ہندوستان باضابطہ طور پر دو حصوں میں منقسم ہوا اور پاکستان کے نام سے ایک نیا ملک عالمی نقشے پر ابھر آیا۔

تعجب اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک کے لوگ ایک طویل جدوجہد کے بعد آزاد ہوئے اور جن کی مذہبی قوم پرستی پر مبنی ’بٹوارے‘ کی خواہش بھی پوری ہوئی وہ اس کا جشن نہ منا سکے۔

’آزادی‘ اور ’تقسیم‘ کے امتزاج کے فوراً بعد بدترین فسادات پھوٹ پڑے اور جان بچانے کی خاطر بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوئی جس نے بعد ازاں انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا مقام حاصل کیا۔

بعض تخمینوں کے مطابق خوفناک فسادات کے درمیان ایک سو دو کروڑ لوگ، اپنی آبائی جائیدادیں اور ان کے پاس جو کچھ مال و اسباب تھا وہ سب چھوڑ کر، انڈیا یا پاکستان ہجرت کر گئے۔ 10 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔ ہزاروں خواتیں اغوا ہوئیں، جن میں سے درجنوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔

اس پر طرہ یہ کہ تقسیم کے اعلان کے بعد بھارت اور پاکستان میں قتل عام، لوٹ مار، آگ لگانے، اغوا، اجتماعی ریپ اور دیگر تمام ظلم و بربریت کی کارروائیاں مذہبی نعروں کی گونج میں انجام دی گئیں۔

تاہم خوں چکاں کے اس گھٹا ٹوپ ماحول میں بھی محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں سرگرداں مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں کی مدد کے لیے اپنی مذہبی وابستگی سے قطع نظر ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے بغیر کسی مذہبی تفریق و تعصب کے ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت کی اور پوری ایمانداری سے چاہا کہ ہندو ہوں یا سکھ ہوں یا پھر مسلمان ہجرت نہ کر کے اپنے ہی علاقوں میں مقیم رہیں یا کم سے کم انہیں صحیح سلامت سرحد پار کرایا جائے۔

بلا لحاظ مذہب و ملت لوگوں کی جانیں بچانے والوں میں بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع انبالہ کے رہنے والے ماسٹر ناہر سنگھ کی کہانی کافی حوصلہ افزا ہے جنہوں نے ایک بڑا خطرہ مول کر کئی مسلمانوں کو بلوائیوں کے غیظ و غضب سے بچایا۔

صحافی اور ہفت روزہ اخبار ’ریاست‘ کے مدیر دیوان سنگھ مفتوں نے اپنی خودنوشت ’ناقابل فراموش‘ میں تفصیل سے ماسٹر ناہر سنگھ کی کہانی بیان کی ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں اکالی گروہ کے سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا تو ناہر سنگھ کو بھی اس گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔

وہ اس میں شامل ہو کر مسلمانوں کے قتل عام کے ارادے سے ایک دن صبح ہی اپنے گھر سے نکلے لیکن راستے میں اپنے ایک مسلمان شاگرد کی قابل رحم حالت کو دیکھ کر اپنا ارادہ ترک کر دیا اور نہ صرف اس لڑکے کی بلکہ اپنے گاؤں اور آس پاس کے مسلمانوں کی جان بچائی اور انہیں مسلم کیمپوں میں بہ حفاظت پہنچایا۔

دیوان سنگھ مفتوں اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’آپ (ماسٹر ناہر سنگھ) نے فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو آپ دیہات سے مسلمانوں کو نکال کر ان کو بچائیں گے۔ چاہے ان کو اس راہ میں خود بھی ہلاک ہونا پڑے۔

’چناں چہ آپ نے اسی وقت سے دیہات کا دورہ شروع کیا اور جو بھی مسلمان ملتا اس کو نکال کر کیمپ میں پہنچا آتے۔ آپ نے اس طرح دو ہزار کے قریب مسلمانوں کو اکالیوں کے ہاتھوں سے بچا کر کیمپوں میں پہنچایا۔

’جب بھی وہ (ماسٹر ناہر سنگھ) آتے ہیں تو میں ان کی زبان سے ان حالات کو پھر سے سن لیا کرتا ہوں کیوں کہ آپ کا مسلمانوں کو قتل کرنے کے ارادے سے اپنے گاؤں جانا اور شاگرد کو قابل رحم حالت میں دیکھ کر ان کے ذہن میں انقلاب پیدا ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس کو بار بار سننے اور اس پر غور کرنے کو جی چاہتا ہے۔‘

دیوان سنگھ مفتوں نے خود اپنے پڑوسی مسلمانوں کے گھروں اور ایک مسجد کی حفاظت کی تھی۔

وہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں: ’جانے (ہجرت کرنے) والوں میں سے ایک تو دفتر ریاست والی بلڈنگ کے مالک انور صاحب اپنا گھر ایڈیٹر ریاست کے سپرد کر گئے۔ ان کے ساتھ رہنے والے مکان میں ان کی خالہ اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہ گھر بھی نگرانی کے لیے ایڈیٹر ریاست کے سپرد کر دیا گیا۔

’ان کے مکان کے ساتھ ایک اور ادھیڑ عمر مسلمان رہتے تھے، جاتے جاتے وہ بھی کہہ گئے سردار صاحب! میں غریب آدمی ہوں مہربانی فرما کر میرے گھر کا بھی خیال رکھنا کہیں لوٹ نہ لیا جاؤں۔

’گویا اس گلی کے تین مکانات کا تو میں آنریری کسٹوڈین مقرر کر دیا گیا۔ ویسے میری دلی خواہش تھی کہ جب تک میں اس گلی میں موجود ہوں کسی کو نقصان نہ پہنچے۔‘

دیوان سنگھ نے آخر تک ان مکانوں کو لوٹنے اور جلانے سے بچایا جب کہ آس پاس کے تمام مسلم مکانات لوٹ کر جلائے گئے۔

اسی طرح پڑوس کی ایک مسجد کو بلوائیوں نے منہدم کرنے کی کوشش کی تو دیوان سنگھ نے اسے بھی بچایا۔

وہ لکھتے ہیں: ’اس مسجد کے متعلق میری ڈانت ڈپٹ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ محلہ کی کہار کلاس اور ادنیٰ قسم کے لوگوں کو، جو لوٹ مار پر آمادہ تھے، ان کا حوصلہ نہ ہوا کہ وہ گلی میں میرے موجود ہوتے ہوئے مسلمانوں کے مکانوں کو لوٹتے۔‘

اردو کے مشہور نقاد آل احمد سرور نے اپنی خودنوشت ’خواب باقی ہیں‘ میں اپنے دوستوں اظہر عباس اور قیصر کا تذکرہ کیا ہے جو دہلی کے قرول باغ کے رہنے والے تھے۔

جب وہاں لوٹ مار شروع ہوئی تو قیصر نے پہلے رفیع احمد قدوائی کی کوٹھی پر پناہ لی لیکن بعد میں اظہر عباس کے گھر چلے گئے لیکن جب وہاں بھی بلوائیوں نے حملہ کر دیا تو اظہر عباس انہیں ساتھ لے کر اپنے ایک پڑوسی، جو کہ سکھ تھا، کے ہاں منتقل کر دیا۔

آل احمد سرور لکھتے ہیں: ’جب لوٹ مار اور مار کاٹ کا سلسلہ بڑھا تو سب لوگ ایک پڑوسی سکھ کے یہاں منتقل ہو گئے۔ اس بھلے آدمی نے اپنی جان پر کھیل کر ان کی حفاظت کی مگر اظہر عباس کا گھر لٹ گیا۔‘

اسی طرح کا ایک واقعہ ماہر تعلیم و شاعرہ ساجدہ زیدی کی خودنوشت ’نوائے زندگی‘ میں ملتا ہے جس میں انہوں نے ان کی جان بچانے والے ایک سردار کے بارے میں لکھا ہے۔

تقسیم ہند کے وقت ساجدہ زیدی بھی قرول باغ میں ہی مقیم تھیں، لیکن جب حالات خراب ہوئے تو وہ لوگ کانگریس کے مسلم رہنما مولانا ابولکلام آزاد کی حویلی میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہوئے۔ وہاں منتقل ہونے سے پہلے ان کی اور ان کے خاندان کی جان ایک سکھ نے بچائی۔

پروفیسر اشتیاق احمد کی کتاب ’دی پنجاب بلڈڈ، پارٹیشنڈ اینڈ کلنسڈ‘ جس کا وسیم بٹ نے ’پنجاب کا بٹوارا 1947: ایک المیہ ہزار داستانیں‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا ہے، میں تقسیم ہند کے وقت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں شمعیں روشن کرنے والی کئی کہانیاں ملتی ہیں۔

پنجاب میں جس بربریت کا مظاہرہ لوگوں نے کیا تھا اسی بربریت کو جہاں اس کتاب میں قلم بند کیا گیا ہے وہیں ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی جان بچانے والے انسانیت کے مسیحاؤں کی کہانیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

پاکستان کے سابق وفاقی وزیر چودھری انور عزیز نے پروفیسر اشتیاق کو ایک انٹرویو میں اپنے والد کے متعلق بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے ایک ہندو خاندان کی خواتین کی جان بچائی اور بعد ازاں ان کے ساتھ باقی لوگوں کو سرحد پار کرائی۔

چودھری ریاست پنجاب کے ضلع گرداس پور کے ہوشیارپور (شکر گڑھ) علاقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن جب حالات کشیدہ ہوئے تو ان کا خاندان سیالکوٹ آ گیا۔ پاس کے ایک گاؤں ریحال میں ہندو برہمن کثیر تعداد میں آباد تھے جو کہ اپنی نیک نیتی اور خلوص و محبت کی بنا پر مسلمانوں سے بھی اچھے تعلقات رکھتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب گرداس پور انڈیا میں اور شکر گڑھ پاکستان کے حصے میں آیا تو ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہو گئے۔ فسادات کی آگ جب گاؤں دیہات میں پہنچی تو ریحال کے ایک پنڈت رام سرن شرما، جو کہ فارسی کے عالم تھے، چودھری انور عزیز کے والد کے پاس مدد کی درخواست لے کر آئے۔

پروفیسر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’پنڈت جی کافی پریشان اور فکر مند تھے۔ ان کو دیکھ کر ہمارے گھر والوں نے رونا شروع کر دیا۔ ہمارے خاندان سے پنڈت جی کے روابط اچھے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ مردوں، خواتین اور لڑکیوں کو اپنی جان کی بازی لگا کر سرحد پار کرائیں گے۔

’ہندوؤں نے جان کے تحفظ کے انعام کے طور پر ہمیں اپنے زیورات دینا چاہے لیکن میرے والد نے کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں اور ہمارے ہوتے ہوئے آپ لوگ فکر نہ کریں۔ انہوں نے (پنڈت جی نے) فیصلہ کیا کہ اپنے خاندان کی سات لڑکیاں ہمارے گھر میں چھوڑ جائیں۔ وہ سب نہایت ہی خوبصورت، شائستہ اور تعلیم یافتہ تھیں۔

’ان کے علاوہ باقی ماندہ خواتین اور ہندوؤں کو ہم 20 سے زائد نوجوان اور بڑے ساتھ لے کر دریا کے پار پہنچ گئے۔ دریا کے ہمارے والے کنارے پر ایک کشتی میں زخمی مسلمانوں کو لایا گیا تھا۔ خواتین کی چھاتیاں کاٹی ہوئی تھیں اور وہ نہایت تکلیف میں تھیں۔

’جب ان مسلمانوں کو پتہ چلا کہ ہم ہندوؤں کو بحفاظت دوسری طرف پہنچانا چاہتے ہیں تو وہ غصے میں آ گئے اور ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ہم نے ان کی کوشش ناکام بنا دی۔‘

پنڈت رام سرن شرما کے گھر کی سات لڑکیاں چودھری انور عزیز کے گھر پورے سات مہینے مقیم رہیں۔ ان لڑکیوں کو اس گھر میں ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ یہاں تک کی انہوں نے اسی گھر میں مٹی و گارے کا ایک چھوٹا سا مندر بھی بنا لیا تھا جہاں وہ پوجا پاٹ کیا کرتی تھیں۔ بعد میں انہیں بھی انڈیا بھیج دیا گیا۔

پروفیسر اشتاق احمد نے مغربی پنجاب کے شیخوپورہ میں ہونے والے قتل عام کی کہانی مختلف کرداروں کی زبانی انٹرویوز کی شکل میں بیان کی ہے۔

ان میں کیول کرشن طولیٰ اور چودھری نذیر احمد ورک کے انٹرویو سے کئی ایسے موقعوں کا پتہ چلتا ہے جب مسلمانوں نے خود کو خطرے میں ڈال کر ہندوؤں اور سکھوں کی جان بچائی۔

پروفیسر اشتیاق احمد کی کتاب میں لکھا ہے کہ اگست 1947 کے اواخر تک محض شیخوپورہ میں تقریباً 20 ہزار سکھوں اور ہندوؤں کا بہیمانہ قتل کیا گیا تھا۔ یہ قتل عام تب شروع ہوا تھا جب مشرقی پنجاب سے ایک لاشوں سے بھری ٹرین لاہور پہنچی تھی۔

’فساد زدہ علاقوں میں کچھ ہندو اور سکھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی خواتین کو بچانے کے لیے قتل کرنا مناسب سمجھا۔

’ان میں شیخوپورہ کے ایک گاؤں کے سردول سنگھ ورک نے بتایا کہ ہم نے اپنی عورتوں کو مسلمانوں کے ہاتھ دینے کی بجائے مارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ خود بھی عزت کی موت مرنا چاہتی تھیں۔ چناں چہ ہم نے اپنے خاندان کی 33 خواتین کا سر قلم کر دیا کچھ تو نو عمر بچیاں تھیں۔

’سردول سنگھ ورک کے خاندان کے ایک سکھ فقیر سنگھ ورک کا کہنا تھا کہ مجھے اور دیگر سکھوں کو پیراں دتہ آرائیں نے بچا لیا اور اپنے گھر لے گیا۔ خدا بھلا کرے سب انسپکٹر غوری کا اس نے بھی کئی سکھوں کی جان بچائی تھی۔‘

پروفیسر اشتیاق نے لکھا ہے کہ بریگیڈیر یعقوب علی ڈوگر کے نانا چودھری مولا بخش ڈوگر نے بے شمار سکھ خواتین و لڑکیوں کی جان بچائی تھی، جن کو ان کے خاندان والے غیرت اور اغوا ہونے سے بچانے کی خاطر مارنا چاہتے تھے۔

چودھری مولا بخش نے خود کو خطرے میں ڈال کر ان خواتین کو سلیمانکی بارڈر تک پہنچایا تھا۔‘

کدارناتھ ملہوترا، جو تقسیم ہند کے بعد پناہ گزینوں کے ہمراہ انڈیا پہنچے تھے، انہوں نے 2004 میں پروفیسر اشتیاق کو ایک انٹرویو میں اپنے اور دیگر مہاجروں کی کہانی سنائی۔

’جب پاکستان کے علاقے گوجرانوالہ میں کشیدگی پھیلی تو ایک گرودوارے میں سیکڑوں سکھ و ہندو پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے، جس میں کدارناتھ کا بھی خاندان تھا، لیکن اس گرودوارے پر بھی حملہ ہوا جس میں کچھ اپنی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔

’بقیہ بچے لوگ گردوارے کو آگ لگانے کی وجہ سے اسی میں زندہ درگور ہوگئے۔ مرنے والوں میں کدارناتھ کے والد بھی شامل تھے۔ جب وہاں پہلی بار حملہ ہوا تو کدارناتھ کے والد نے اپنے ایک مسلم دوست رمضان سے مدد مانگی۔ انہوں نے اپنے بیٹے جاوید کو گرودوارے بھیجا۔

’کدارناتھ کے والد گردوارہ چھوڑنا نہیں چاہتے تھے اس لیے صرف وہی جاوید کے ساتھ اس کے گھر گئے۔ وہاں ان کی جان کی حفاظت اس مسلم خاندان نے اپنی جان کی بازی لگا کر کی تھی۔

’چند روز رہنے کے بعد ہندوستانی فوج کے ساتھ کدارناتھ امرتسر آ گئے۔ بعد ازاں دہلی میں سکونت اختیار کی اور کہتے ہیں کہ میں اس مسلم خاندان کو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھتا ہوں۔‘

پروفیسر اشتیاق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے بشیرا نامی شخص نے ایک سکھ سمپورن سنگھ اور ان کے والد کو اس وقت قتل ہونے سے بچایا تھا جب مسلم بلوائیوں کا ایک گروہ ان کو مارنے کے درپے تھا۔

’دراصل بشیرا ان ہی بلوائیوں میں شامل تھا لیکن سمپورن سنگھ کا پڑوسی ہونے کے ناطے اس نے دوسرے لوگوں سے چیخ کر کہا کہ یہ میری پناہ میں ہیں خبردار جو کسی نے ہاتھ لگایا چناں چہ بلوائی وہاں سے بھاگ گئے لیکن سمپورن سنگھ کی والدہ اور بہنوں کو گردوارے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ جلایا جا چکا تھا۔

’سمپورن سنگھ کے والد دانتوں کا مفت علاج کرتے تھے بشیرا کا بھی انہوں نے علاج کیا تھا۔‘

پروفیسر اشتیاق نے تقسیم کے بعد راولپنڈی سے انڈیا ہجرت کرنے والے بشام کمار بکشی کے حوالے سے لکھا ہے: ’فسادات کے دوران سکھوں و ہندوؤں کو بچانے میں راولپنڈی کے خاکساروں نے شاندار کردار ادا کیا تھا۔‘

معلوم رہے کہ آزادی سے قبل مسلمانوں کی ایک تحریک ’تحریکِ خاکسار‘ کے نام سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ہندوستان کو برطانوی راج سے آزاد کر کے مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا تھا۔ اس سے جڑے خاکی وردی پہنے رضاکار ’خاکسار‘ کہلاتے تھے۔

پروفیسر اشتیاق نے لکھا ہے کہ بالی وڈ کے معروف اداکار سنیل دت اور ان کے خاندان کا تعلق جہلم سے بیس کلو میٹر دور واقع گاؤں خورد سے تھا۔

’ان کے تایا جی کو ان کے دوست یعقوب نے اپنی جان پر کھیل کر نہ صرف جان بچائی تھی بلکہ ان کو بحفاظت مہاجر کیمپ میں بھی پہنچایا تھا۔‘

تقسیم کے بعد سب سے بڑا مسئلہ مغویہ خواتین کا تھا۔ خواتین و لڑکیوں کو اغوا کر کے بربریت اور حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ مغربی پنجاب میں سکھوں نے اپنی عورتوں کو مارنا مناسب سمجھا۔

اردو زبان کی معروف شاعرہ ادا جعفری نے اپنی خودنوشت ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ میں رابعہ کی کہانی بیان کی ہے جو تقسیم ہند کے وقت اغوا ہونے والی لڑکیوں میں سے ایک تھی۔

تقسیم سے قبل یونیورسٹی میں ایک سکھ اس کا پیچھا کرتا رہتا تھا۔ فسادات جب شروع ہوئے تو رابعہ کے ساتھ اس کے محلے کی کئی لڑکیوں کو سکھوں نے بندی بنا لیا، ان میں وہ سکھ نوجوان بھی شامل تھا جو رابعہ کا پیچھا کرتا تھا۔

جب سکھوں نے ان لڑکیوں کا آپس میں بٹوارہ شروع کیا تو اس سکھ نے جو رابعہ کے پیچھے تھا، باقی لوگوں سے اپنے لیے اس کو مانگ لیا اور رات بھر اس کی حفاظت کی اور اس سے کہا کہ تم بے فکر رہو مجھے تمہاری عزت و آبرو پیاری ہے، لیکن میں اس کمرے سے باہر نہیں نکل سکتا ورنہ مجھے اپنے لوگ ہی مار دیں گے۔

جب صبح ہوئی تو اس سکھ نے رابعہ کو گھر پہنچانے کی بات کی جس پر وہ راضی نہیں ہوئی، اس کا کہنا تھا کہ پوری رات گزر گئی ہے اب گھر جا کر کیا کروں گی۔ اس لیے اس سے منت کی کہ تم اپنے گھر لے چلو اور اپنا نام دے دو۔

وہ سکھ رابعہ سے سچی محبت کرتا تھا چناں چہ اس نے رابعہ سے کچھ دن بعد شادی کر لی۔ رابعہ اپنے نئے نام راہبہ کے ساتھ اس شخص کے تین بیٹوں کی ماں بن گئی۔

پروفیسر اشتیاق لکھتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد جب گرداس پور ہندوستان کی تحویل میں آیا تو وہاں کے مسلمانوں کے پیر اکھڑ گئے کیوں کہ ان کو پوری امید تھی کہ یہ علاقہ پاکستان کا حصہ بنے گا۔

’حالات مختلف ہونے کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں سے ہجرت کر گئی۔ چودھری محمد بشیر بھی اپنے خاندان کے ساتھ گرداس پور سے پاکستان کی جانب چل پڑے۔‘

چودھری محمد بشیر کے بقول: ’ہمارے گاؤں کے کسی ہندو نے ہم پر حملہ کیا نہ ہم نے ایسی کوئی کارروائی کی۔ جب ہم روانہ ہوئے تو ملحقہ گاؤں کے سکھ چرن سنگھ اور دلیپ سنگھ بارڈر تک ہمیں چھوڑنے آئے۔ اگر وہ ہماری مدد نہ کرتے تو حالات مختلف ہوتے۔‘

تقسیم ہند کے بعد لوگوں کو یہ یقین تھا کہ فسادات میں جب کمی آئے گی تو وہ واپس اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔ ہندو، سکھ یا مسلمان جب اپنے گھروں سے جانے لگے تو اپنے دوستوں یا پڑوسیوں کو گھروں کی چابیاں دیتے گئے۔

سابق صحافی، ادیب و سیاست داں خوشونت سنگھ نے اپنے گھر کی چابیاں ایک مسلمان کے حوالے کی تھیں جس کا ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت میں کیا ہے۔

وہ تقسیم کے بعد لاہور سے ہجرت کر کے دہلی آئے تھے۔ اپنے لاہور والے گھر کی چابی منظور قادر جو ان کے بے حد قریبی دوست بھی تھے، کو یہ کہہ کر دی تھی کہ جب حالات سازگار ہو جائیں گے تو وہ لوٹ آئیں گے۔

خشونت سنگھ کے ایک ملازم دلیپ سنگھ نے لاہور میں ہی رہ کر گھر کی حفاظت کا تہیہ کیا تھا لیکن بلوائیوں کو شک ہو گیا تھا کہ اس گھر میں کوئی سکھ چھپا ہوا ہے۔

جب معاملے نے زیادہ طول کھینچا تو منظور قادر نے نہ صرف دلیپ سنگھ کی حفاظت کی بلکہ اسے سرحد پار بھی پہنچایا۔

اس سلسلے میں خوشونت سنگھ اپنی خودنوشت ’سچ، محبت اور ذرا سا کینہ‘ (ترجمہ محمد احسن بٹ) میں لکھتے ہیں: ’راستے میں، میں نے اپنے لاہور کے ملازم دلیپ سنگھ کو سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پایا۔

’اس نے مجھے بتایا کہ ہجوم لاہور میں ہمارے گھر میں آیا تھا۔ قادر اور اس کے نوکروں نے اسے کئی دن تک چھت پر چھپائے رکھا اور منظور نے صدر دروازے سے میرے نام کی تختی ہٹا دی تھی اور اس کی جگہ اپنی نیم پلیٹ لگا دی تھی۔

’لیکن خبر نکل گئی کہ ایک سکھ کو پناہ دی جا رہی ہے اور حملہ آور گھر کی تلاشی لینا چاہتے تھے۔ منظور ان کے اندر گھس آنے سے پہلے ہی پولیس کو بلانے میں کامیاب رہا۔

’اسی رات کو اس نے دلیپ کو اپنی کار میں چھپا کر اس جگہ پہنچایا جو نئی پاک و ہند سرحد بننے والی تھی۔ اس نے اسے پیسے دیے اور امرتسر سے کالکا جانے والی ٹرین میں سفر کرنے کی ہدایت کی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ