کیا آزاد پختونستان کی جڑیں تقسیم ہندوستان میں ہیں؟

پختونستان کے معاملے کی تلخی کے اثرات افغانستان اور پاکستان کے تعلقات پر آج تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

افغانستان کے سابق بادشاہ ظاہر شاہ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان کے ساتھ (پبلک ڈومین)

افغانستان کے مسئلے کو پاکستان میں ’تزویراتی گہرائی‘ (سٹریٹیجک ڈیپتھ) کے طور پر لیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ کابل میں اس کی دوست حکومت ہو۔ پاکستان یہ کیوں چاہتا ہے؟

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تقسیم کے وقت سے ہی افغانستان نے پختون علاقوں پر پہلے اپنا حق جتایا اور بعدازاں آزاد پختونستان کی تحریکوں کی آبیاری کی۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس وقت کی برطانوی حکومت اور خود نہرو نے افغانستان کے اس موقف کو نہ صرف سختی سے رد کیا بلکہ صوبہ سرحد کو تاریخی اور جغرافیائی طور پر ہندوستان کا حصہ قرار دیا۔

تاریخ میں آزاد پختونستان کی جڑیں سب سے پہلے جس کتاب میں ملتی ہیں اس کا نام ’دی پٹھانز‘ ہے جس کے مصنف انگریز دور کے گورنر سرحد اولف کیرو تھے۔ اس نے لکھا تھا کہ تقسیم برصغیر پٹھانوں کے لیے نادر موقع ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ اس وقت ڈاکٹر خان اور خان عبد الغفار خان نے یہ تجویز انڈین نیشنل ازم کی علمبرداروں کی حیثیت سے رد کر دی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سرحد انڈین یونین کا حصہ ہو گا۔

10 مئی کو برطانوی حکومت نے انتقال اقتدار کے لیے جو پہلا منصوبہ پیش کیا تھا اس میں ریاستوں اور راجواڑوں کے لیے پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کے علاوہ تیسرا آپشن آزادی کا بھی دیا گیا تھا۔ اس پس منظر میں اولف کیرو کا خیال تھا کہ صوبہ سرحد میں پختونوں کے لیے علیحدہ وطن ہی مناسب رہے گا۔ لیکن کانگریس نے ریاستوں کی آزادی کا آپشن نہ صرف رد کر دیا بلکہ لاردڈ ماؤنٹ بیٹن کو دھمکی بھی دے دی کہ ایسی صورت میں ہندوستان دولت مشترکہ میں شامل نہیں ہو گا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فوراً برطانوی قیادت سے رجوع کیا اور تین جون کو دوسرا منصوبہ پیش کر دیا جس میں ریاستوں کے لیے آزادی کا آپشن ختم کر دیا گیا تھا۔

حیرانی کہ بات یہ بھی تھی جب خان عبد الغفار خان آزاد پختونستان کی بات کر رہے تھے تو اس کی مخالفت کوئی اور نہیں نہرو اور گاندھی کر رہے تھے۔ تاریخ پاکستان کی سات جلدوں پر مشتمل کتاب ’پاکستان کیسے بنا؟‘ کی دوسری جلد میں مصنف زاہد چوہدری نے اس مسئلے پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ کتاب کے صفحہ 547 پر لکھا گیا ہے کہ پانچ جون 1947 کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ڈاکٹر خان صاحب کے ساتھ ملاقات کی اور اسے نہرو کے خیالات سے آگاہ کیا کہ پہلے مجوزہ منصوبے میں صوبوں کو آزادی کی راہ اختیار کرنے کی تیسری چوائس دی گئی تھی مگر اسے کانگریس کے اصرار پر ختم کر دیا گیا ہے اور اب یہ اختیار صرف صوبہ سرحد کو نہیں دیا جا سکتا۔

ویسے بھی نہرو کا خیال ہے کہ 30 لاکھ آبادی کا صوبہ اپنی علیحدہ حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے گا اسے لامحالہ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ شامل ہونا پڑے گا۔ جس پر ڈاکٹر خان نے کہا کہ صوبہ سرحد کبھی پاکستان میں شامل نہیں ہو گا۔ ماؤنٹ بیٹن نے جواب دیا کہ ’آپ ہندوستان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ آپ اس بات کو خاطر میں نہ لائیں کہ صوبہ سرحد اور پاکستان کے درمیان پاکستان کا مغربی صوبہ پنجاب حائل ہو گا۔ آخر اس طرح کی صورت حال مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان بھی تو ہو گی۔‘

صوبہ سرحد کے مستقبل کے تعین کا فیصلہ جو ابھی تک صوبہ سرحد کی کانگریسی حکومت اور تاج برطانیہ کے درمیان تھا اس میں 11 جون کو افغانستان بھی کود پڑا، جب افغان وزیر خارجہ علی محمد نے کابل میں متعین برطانوی سفیر کے ساتھ ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ صوبہ سرحد کے عوام کو پاکستان یا افغانستان میں کسی ایک ساتھ شامل ہونے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ انہیں آزاد پختونستان بنانے یا پھر اسے افغانستان میں شمولیت کی چوائس بھی دی جائے۔

برطانوی سفیر نے یہ مطالبہ لندن میں وزارتِ خارجہ کے سامنے رکھا۔ افغانستان حکومت نے 20 جون کو برطانوی حکومت کو ایک نوٹ ارسال کیا کہ ’صوبہ سرحد در اصل افغانستان کا حصہ ہے جسے گذشتہ صدی کی اینگلو افغان لڑائیوں کے دوران برطانیہ نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ چنانچہ صوبہ سرحد کو یا تو آزاد ریاست بننے یا اپنے مادر وطن افغانستان میں شامل ہونے کا اختیار دیا جائے۔‘

افغان حکومت اور برطانوی حکومت کے مابین ہونے والی خط و کتابت کی نقول حکومت ہند کے محکمہ خارجہ کو بھیجی گئیں جس کا قلمدان نہرو کے پاس تھا۔ نہرو نے آزاد پختونستان کے آپشن کو سختی کے ساتھ رد کرتے ہوئے 29 جون کو برطانوی وزیر خارجہ کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں کہا گیا کہ 1893 کے ڈیورنڈ لائن معاہدے کے مطابق ہند اور افغانستان ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے پابند ہیں لیکن اب افغان حکومت صوبہ سرحد کے بارے میں جو مؤقف اختیار کر رہی ہے وہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں سراسر دخل اندازی ہے جس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ آزاد پٹھان ریاست کا سوال اٹھانے کا حق بھی ہندوستان کے دائرے میں بنتا ہے۔‘

جس پر برطانوی وزارتِ خارجہ نے افغانستان کو تفصیلی جواب لکھا جس میں کہا گیا کہ ’افغانستان جس علاقے کے بارے میں دعوی ٰ کر رہا ہے وہ انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے اور اس بات کو 1921 کے اینگلو افغان معاہدے میں تسلیم بھی کر چکا ہے۔ اس لیے اب صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کے بارے میں افغانستان جو تجاویز دے رہا ہے وہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔‘

 24 جون کو خان عبد الغفار خان نے ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ہم دونوں آپشنز میں سے کسی کو اختیار نہیں کرنا چاہتے بلکہ آزاد پٹھان ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نہرو کے برعکس گاندھی نے مختلف موقف اختیار کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ریفرنڈم میں عوام کی اکثریت پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گی۔

اس لیے انہوں نے غفار خان کے نام پانچ جولائی کو ایک خط لکھا جس میں کہا کہ ’خدائی خدمت گاروں کو ریفرنڈم سے بالکل الگ تھلگ رہنا چاہیے۔ آپ اپنے داخلی معاملات کے متعلق مکمل خودمختاری کے بدستور دعویدار رہیں گے اور جب دونوں ملک یعنی پاکستان اور انڈین یونین اپنے اپنے آئین کا نفاذ کریں گے تو صوبہ سرحد اپنے خود مختار آئین کا اعلان کر دے گا۔ بائیکاٹ کے نتیجے میں ریفرنڈم میں پاکستان کو اگرچہ قانونی طور پر فتح حاصل ہو جائے گی لیکن یہ ان کی اخلاقی شکست ہو گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چھ سے 17 جولائی تک صوبہ سرحد میں ریفرنڈم ہوا جس کی نگرانی گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل لوک ہارٹ نے کی جو بعد ازاں انڈیا کی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف بنے۔ اس کام میں ان کا ہاتھ بریگیڈیئر جے پی بوتھ نے بٹایا تھا۔ خان عبد الغفار خان کے خدائی خدمت گاروں اور کانگریس نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تاہم پٹھانوں کی بھاری اکثریت نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ 289244 رائے دہندگان نے پاکستان کے حق میں اور 2874 افراد نے خلاف ووٹ دیا۔

خان عبد الغفار خان نے صوبہ سرحد کے پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی افغان حکومت کے ذرائع ابلاغ نے پختونستان کی آزادی کا پراپیگنڈا تیز کر دیا۔

یہ ہے آزاد پختونستان تحریک کا پس منظر۔ اس واقعے کو اگرچہ کم و بیش ربع صدی ہونے کو آئی ہے مگر کابل میں جو بھی حکومتیں آتی ہیں وہ وہیں پر ہی کھڑی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ ان کے اس موقف کے حمایتی سرحد کے اس طرف بھی اب گنے چنے ہی رہ گئے ہیں، لیکن دراصل یہی وہ تلخی ہے جو پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات میں آج تک موجود ہے اور اس کے اثرات افغانستان کے مسئلے پر آج تک مرتب ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ