کراچی کے علاقے لیاری میں گذشتہ جمعے کو ایک پرانی رہائشی عمارت کے گرنے سے 27 اموات کے بعد سندھ حکومت حرکت میں آ گئی ہے، اور شہر کے اس قدیم علاقے میں واقع 54 خطرناک عمارتوں کو خالی کرا کے کچھ کی مسماری کا عمل جاری ہے۔
سندھ حکومت نے ان عمارتوں سے بے دخل کیے گئے متاثرین کو تین ماہ کا کرایہ دینے کا وعدہ تو کیا ہے، مگر متاثرہ افراد حکومتی رویے اور سہولیات کی عدم دستیابی پر سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
چار جولائی کو بغدادی محلے میں واقع پانچ منزلہ فوتانی مینشن کے گرنے سے اس کے ساتھ واقع جنید آرکیڈ کی دیوار کو معمولی نقصان پہنچا، مگر حکام نے احتیاطاً اسے بھی خالی کرا لیا۔
عمارت کے رہائشی سلمان احمد کے مطابق جنید آرکیڈ کے 27 فلیٹس سے لوگوں کو نکال دیا گیا۔
’ہم نے خواتین کو رشتہ داروں کے گھروں بھیج دیا ہے جبکہ مرد مساجد میں رات گزارتے ہیں۔ پانچ دن گزر چکے ہیں، لیکن ہمیں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ہماری عمارت کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟‘
جنید آرکیڈ کی طرح لیاری ٹاؤن کے دیگر علاقوں میں بھی متعدد عمارتیں خالی کرا لی گئی ہیں۔
فوتانی مینشن کے گرنے سے بچوں اور خواتین سمیت 27 افراد جان سے گئے تھے۔ ریسکیو حکام کے مطابق مرنے والوں میں کئی خاندان مکمل طور پر ختم ہو گئے۔
متاثرہ عمارت، فوتانی مینشن کے تین بلاکس تھے، جن میں سب سے زیادہ نقصان بی بلاک کو پہنچا۔ اسی عمارت کے رہائشی 54 سالہ میگھجی نے بتایا ’بی بلاک کے گرنے سے اے بلاک کی عقبی دیوار بھی مکمل گر گئی۔ میرے خاندان کے چھ افراد جان سے گئے۔ باقی خاندان بغیر کسی سامان کے بے گھر ہو گئے۔‘
میگھجی کے مطابق متاثرہ خاندان کئی روز تک کھلے آسمان تلے بیٹھے رہے، مگر حکومت کی جانب سے خوراک یا رہائش کا بندوبست نہ ہونے کے باعث وہ مجبوری میں رشتہ داروں کے گھروں چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہمیں اتنی عجلت میں نکالا گیا کہ زیورات اور قیمتی سامان تک نہیں اٹھا سکے۔ حکومت نے وعدے تو کیے ہیں، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔‘
58 سالہ کشن نے، جو ایک درزی ہیں اور 40 برس سے فوتانی مینشن میں مقیم تھے، بتایا ’میری ساری زندگی کی کمائی اس گھر میں تھی، جو عمارت کے ساتھ دب گئی۔ اب نہ سر پر چھت ہے نہ کچھ کھانے کو۔ بچوں سمیت دربدر ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تمام متاثرین کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ فوری طور پر رہائش بھی فراہم کی جائے۔
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے سانحے کے اگلے روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کراچی بھر میں 588 عمارتیں خطرناک قرار دی جا چکی ہیں۔
ان میں سے صرف لیاری کوارٹرز میں 107 عمارتیں شامل ہیں، جن میں 51 ’خطرناک‘ اور 22 ’انتہائی خطرناک‘ درجے میں آتی ہیں۔