سکریپ سے شاہکار: اسلام آباد کے نوجوان کے انوکھے دھاتی مجسمے

احتشام جدون سکریپ آئرن اور ری سائیکل شدہ دھاتوں سے مجسمے بناتے ہیں، جو نہ صرف آرٹ کی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جذبہ ہو تو پرانا لوہا بھی کام آ سکتا ہے۔

اسلام آباد کے احتشام جدون سکریپ آئرن اور ری سائیکل شدہ دھاتوں سے مجسمے بناتے ہیں، جو نہ صرف آرٹ کی دنیا میں اپنی مثال آپ ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جذبہ ہو تو پرانا لوہا بھی کام آ سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف آرٹ نہیں بلکہ ان کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

احتشام نے بتایا کہ ابتدا میں وہ اپنے اندر کے غصے اور بے چینی کو نکالنے کے لیے مجسمے بناتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ یہ ان کا شوق بن گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ’ایک دن مارکیٹ میں میری ملاقات ایک ایسے نوجوان سے ہوئی، جو نہ سن سکتا تھا اور نہ بول سکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمارے لیے اکٹھے کام کرنا ناممکن ہوگا، لیکن پھر ہم نے اشاروں اور خاموشی سے رابطہ کیا۔

’ہم نے مل کر ایک ڈائنوسار بنایا اور جب وہ مکمل ہوا تو لگا کہ جیسے خواب حقیقت میں بدل گیا ہو۔‘

اپنے آرٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا: ’میں سکریپ میٹل خرید کر جمع کرتا ہوں۔ پھر اسے صاف کرتا ہوں، زنگ ہٹاتا ہوں تاکہ یہ مجسمے برسوں تک محفوظ رہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احتشام کے مطابق وہ اپنے مجسمے بغیر کسی سکیچ کے بناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’بس ایک تصویر ذہن میں ہوتی ہے اور پھر میں سکریپ میٹل کے ٹکڑوں کو جوڑ کر اسے حقیقت میں بدل دیتا ہوں۔‘

بعض اوقات 25 یا 30 فٹ کے بڑے مجسمے بنانے میں انہیں دو سے تین مہینے لگ جاتے ہیں۔

اب تک احتشام ڈائنوسار، شیر، درخت، مرغا اور آئی بیکس کے مجسمے بنا چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مجمسوں میں حرکت (موومنٹ) بھی شامل ہو سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ میڈیا ہمیشہ نوجوانوں کو صرف سوشل لائف دکھاتا ہے، مگر وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کے آرٹ بھی سامنے آئیں تاکہ نئی نسل کو مختلف چیزیں دکھائی دیں۔

بقول احتشام: ’مجھے اپنے آرٹ سے محبت ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ لوگوں کو بھی پسند آئے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی