لاہور پولیس نے سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں شادی کی تقریب میں ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کو باوردی پروٹوکول اور کرنسی نوٹوں کا تھال پکڑنے والے پولیس اہلکار محمد کاشف اور ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کو گرفتار کر لیا ہے۔
کاشف ضمیر کے خلاف جمعے کو پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
لاہور پولیس نے اس معاملہ میں پولیس کی وردی کا تمسخر اڑانے اور محکمے کو بدنام کرنے کے دو مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، کاشف ضمیر نے پولیس کی وردی پہنے اہلکار کے ہمراہ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور تصاویر شیئر کیں جن میں قانون نافذ کرنے والے ادارے کی ساکھ مجروح کرنے والی حرکات کی گئیں۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران کے مطابق، ’سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاکر نے پولیس کا مذاق اڑایا بلکہ قانون کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی کوشش بھی کی۔
’اس واقعے کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے نہ صرف کاشف ضمیر بلکہ پولیس اہلکار کے خلاف بھی مقدمہ درج کر کے اہلکار کو گرفتار کر لیا، اور ٹک ٹاکر کی گرفتاری جلد عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی حرکتیں عوام میں پولیس کے وقار اور اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہیں، جو قانوناً ناقابل قبول اور قابل سزا جرم ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی مکمل تفتیش کی جا رہی ہے اور ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانونی طور پر پولیس اہلکار وردی میں کسی عام شہری کو پروٹوکول یا ویڈیو بنانے میں انہیں وی آئی پی ظاہر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بارے میں میڈیا کو جاری بیان میں فیصل کامران نے کہا کہ ’قانونی طور پر اعلیٰ حکومتی عہدوں پر موجود شخصیات کے علاوہ مخصوص طریقہ کے بغیر کسی کو پولیس اہلکار وردی میں سکیورٹی یا پروٹوکول دینے کے مجاز نہیں ہیں۔ اس طرح کی ویڈیوز سے محکمہ کا مذاق اڑانے والے ملازمین کے خلاف پہلے بھی کارروائی ہوتی ہے اب بھی ہو رہی ہے۔‘
ویڈیو میں ماسک پہنے باوردی اہلکار کی شناخت کیسے ہوئی؟
رواں ہفتے ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کی جانب سے ایک ویڈیو وائرل کی گئی جس میں وہ پولیس کے ایک باوردی ملازم کے ساتھ شادی میں پروٹوکول سے شرکت کرتے دکھائے گئے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریب میں پولیس اہلکار نوٹوں کا تھال لیے کھڑا ہے جبکہ ٹک ٹاکر نوٹ اٹھا کر پھینک رہا ہے۔
اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے پولیس پر شدید تنقید کی گئی، جس کے بعد پولیس حکام نے معاملے کا نوٹس لیا اورپولیس اہلکار کی تلاش شروع کر دی گئی۔ اس حوالے سے ایک مقدمہ گذشتہ روزجمعرات کو تھانہ قلعہ گجر سنگھ دوسرا مقدمہ آج جمعے کو تھانہ سبزہ زار میں پولیس نے اپنی مدعیت میں درج کیا ہے۔
فیصل کامران کے مطابق اس حوالے سے چیک کیا گیا کہ پولیس کی وردی کسی نے استعمال کی ہے یا پولیس ملازم خود ہے۔ چہرے پر ماسک کی وجہ سے ویڈیو میں شناخت کرنا ممکن نہیں تھا۔ پھر محکمے کے ملازمین کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا یہ محمد کاشف محکمہ کا ملازم ہے۔
انہوں نے کہا، ’ہم نے لاہور کے کاشف نام کے 40 اہلکاروں کی چھان بین کی تو معلوم ہوا یہ پولیس لائنز میں تعینات ہے اور کاشف ضمیر کے ساتھ چھٹی کر کے کئی تقریبات میں جاتا ہے اور اسے یونیفارم میں پروٹوکول دیتے ہوئے ویڈیوز بنواتا ہے۔‘
فیصل کامران نے کہا، ’اس ملازم کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے دو مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ایک پولیس ملازم اور ٹک ٹاکرکاشف ضمیر کی جانب سے پولیس یونیفارم کی تضحیک کرنے کا درج کیا ہے، جبکہ دوسرا پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا ہے۔ پولیس اہلکار کے خلاف قانونی اور محکمانہ کارروائی کی جارہی ہے۔‘
ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا، جبکہ سوشل میڈیا صارفین کی ایک بڑی تعداد نے اس حرکت پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ حکام سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ کاشف ضمیر سوشل میڈیا پر اپنے متنازع بیانات اور طرزِ زندگی کی وجہ سے پہلے بھی خبروں کی زینت بن چکے ہیں، اور یہ پہلا موقع نہیں کہ وہ قانون کی زد میں آئے ہوں۔ کچھ عرصہ قبل ان کے خلاف فراڈ سمیت متعدد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔
کیا باوردی پولیس ملازم کسی عام شہری کو پروٹوکول دے سکتا ہے؟
پنجاب سکیورٹی برانچ کے ریٹائرڈ عہدیدار ضیا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومتی شخصیات یا سرکاری محکموں کے اعلیٰ عہدیداران کو تو قانون کے مطابق سکیورٹی اور پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو قانونی طور پر پروٹوکول کی تو اجازت نہیں، لیکن کسی رکن اسمبلی، سماجی شخصیت یا عام شہری کو پولیس سکیورٹی حاصل کرنے کے لیے قانونی طریقہ کار اپنانا ہوتا ہے۔
’سکیورٹی حاصل کرنے کا قانونی طریقہ یہ ہے کہ اگر کوئی رکن اسمبلی یا سماجی شخصیت یہ محسوس کرے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں پولیس کی سکیورٹی ملنی چاہیے تو ایسی صورت میں متعلقہ ضلع کے ڈی سی کو درخواست دینا پڑتی ہے جس میں تمام وجوہات درج کرنا پڑتی ہیں۔ کہ درخواست گزار کو کس نوعیت کا خطرہ ہے اور انہیں کس طرح کی سکیورٹی درکار ہے۔‘
بقول ضیا اللہ، ’ڈی سی اس درخواست کا جائزہ لینے کے بعد ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے معاملہ رکھتے ہیں۔ کمیٹی درخواست گزار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کے بعد یہ تجویز کرتی ہے کہ اسے واقعی کسی خطرناک گروپ یا گروہ سے حملے کا خطرہ ہے۔ کمیٹی اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ درخواست دینے والے کو پولیس سکیورٹی فراہم کی جائے تو ڈی سی پولیس حکام کو ہدایت دیتے ہیں کہ سکیورٹی اہلکار فراہم کیے جائیں۔ اگر کمیٹی معاملے کو غیر سنجدہ یا معمول کا سمجھتی ہے تو درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔‘
فیصل کامران کے مطابق، ’کوئی بھی عام شہری چاہے جتنا بی بااثر ہو، قانونی طریقے کے بغیر سکیورٹی حاصل نہیں کر سکتا، البتہ قانونی طرہقے کے علاوہ اگر کوئی عدالت یا اعلیٰ حکومتی عہدیدار کسی کو سکیورٹی فراہم کرنا چاہیں تو ہی باوردی پولیس اہلکار سکیورٹی دے سکتا ہے، مگر پروٹوکول کا تو بلاوجہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘