عزت اور غیرت سے بھری تاریخ میں جو سبق ہم نہیں سیکھ پاتے

ہم لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ سیریس لے لیتے ہیں۔ انا کے چکر میں رشتے توڑ دیتے ہیں، نوکریاں چھوڑ دیتے ہیں، گھر توڑ لیتے ہیں اور زندگی تباہ کر دیتے ہیں۔

عزت آنی جانی چیز ہے، بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے۔ میٹرک کے فوراً بعد اپنے پٹھان دوست کو میں یہ اصول رٹوانے اور اُسے اِس کا عملی پائجامہ چڑھوانے کی کوشش کرتا تھا۔

اس بے چارے کا ماتھا گھبراہٹ میں پسینے سے چمک جاتا تھا، کان شرمندگی سے کبھی لال ہو رہے ہوتے، بعض دفعہ ایسی ہی کسی کوشش میں ہنسی آتی تو ضبط کرنے سے آنکھوں میں پانی تک اتر آتا لیکن وہ ہمت بہرحال کر لیتا تھا۔

سموسہ دو روپے کا ہوتا تھا اور ویگن والے بھی کالج پہنچانے کے لیے دو روپے ہی کرایہ لیتے تھے۔ ہم لوگ ویگن پہ چڑھ کے ’سٹوڈنٹ‘ بن جایا کرتے تھے۔ ویگن والا مانے یا نئیں، ہمیں گھر سے کالج تک فری فنڈ میں سفر کرنا ہوتا تھا۔

اب خدا جانے باقی ہے یا نہیں، اس زمانے میں حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ گلابی رنگ کا ایک کارڈ بچوں کا بنتا تھا جو سکول یا کالج والے بناتے تھے، اس کے بعد شہر بھر میں چلنے والی ویگنوں کے لیے اپن لوگ ’بھیکو مہاترے‘ ہوتے تھے، بحیثیت سٹوڈنٹ مفت سفر ہمارا ’حق‘ ہوتا تھا۔

’ممبئی کا کنگ کون؟ بھیکو مہاترے!‘ یہ فلم ستیہ کا ڈائیلاگ تھا۔ اس زمانے میں ہر آوارہ گرد، لُچا، لفنگا، موالی اپنے کو بھیکو مہاترے سمجھتا تھا۔ بھیکو مہاترے کردار سے نکل کر ایک کیفیت میں تبدیل ہو چکا تھا۔

تو ویگن والے جو تھے غریب، وہ تو بے چارے ٹھیکے پہ ویگن چلاتے تھے۔ ہر پھیرے کے انہیں پیسے دینے ہوتے تھے، ہم دو سٹوڈنٹ لوگ ان کا سارا حساب کتاب راکھ کر دیتے تھے۔ ہم لوگ تو کنڈکٹر اور ڈرائیور تک کو پہلے سے تاڑ کے ویگن چڑھتے تھے۔ جو ذرا تگڑے لگتے، اپن لوگ ان کی ویگن میں بیٹھتے ہی نہیں تھے۔ کوئی غریب چرسی قسم کا مہاتڑ سا بندہ کنڈکٹر نظر آتا تو سکون سے اندر جا کے بیٹھ جاتے۔

اب  ہوتا یہ تھا کہ بعض اوقات وہ ماڑا مُکا ہوا بندہ بھی احتجاجی نکل آتا۔ فرسٹ ایئر کے ٹانگ برابر لونڈے رعب جمائیں اور مفت میں سفر کریں، آپ کو برداشت ہو سکتا ہے؟ تو بس ایسا جب جب ہوتا تھا، میں نجف خان کو اس قول زریں کا ورد کرواتا رہتا تھا کہ عزت آنی جانی چیز ہے، بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے۔

ہم لوگوں کا تو کارڈ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ویگن میں چڑھ کے بیٹھتے ساتھ ٹانگ پہ ٹانگ رکھی اور سامنے خلاؤں میں گھورنا شروع ہو گئے۔ اب اندر ہی اندر کنڈکٹر سڑ رہا ہوتا تھا کہ مُفتے چڑھ گئے، ہم ڈر رہے ہوتے تھے کہ اگلا زیادہ جھگڑا نہ شروع کر دے۔

آخری تڑی ہمارے پاس یہ ہوتی تھی کہ ’سول لائنز کالج کے سامنے سے گزرنا ہے نا آج کے دن میں؟‘ اس پہ اکثر ڈرائیور کنڈکٹر بات نہیں بڑھاتے تھے کیوں کہ سول لائنز کے لڑکے فُل اتھرے تھے۔ آئے دن ویگن والوں کی پھینٹیاں چڑھتی تھیں۔

بات جھگڑے کی حد تک تو نہیں بڑھتی تھی لیکن باقی کوئی پندرہ بیس سواریوں کے سامنے تھرڈ کلاس قسم کی بے عزتیوں تک ضرور پہنچتی تھی۔ سارے طعنے مہنے اسی قول کے سر پہ برداشت کیے جاتے کہ ‘عزت آنی جانی چیز ہے۔‘

گھر سے پیسے الحمدللہ ملتے تھے لیکن واللہ کہ کینٹین پہ بیٹھ کے یار دوستوں میں عیاشی کرنا اتنی اہمیت رکھتا تھا کہ بعض اوقات اپن دونوں گھر سے کالج تک کوئی پانچ کلومیٹر کے سفر میں تین ویگنیں بدلتے۔ جس سے زیادہ پھڈا ہوتا اس کو بولتے کہ بھئی تو اُتار دے اگلے سٹاپ پہ، پیسے نئیں جے دینے! پیدل بھی منزل مار لیتے تھے لیکن اس ساری کارروائی کے بیچ میں نجف خان کی شکل دیکھنے والی ہوتی تھی۔ اس کا تصورِ خودی علامہ اقبال والا تھا اور فقیر کا خالص اپنا برانڈ تھا۔

ایک بار تو یہ بھی ہوا کہ تھوڑے نمبر شمبر اچھے آ گئے نجف کے تو ہم دونوں ایک ریسٹورینٹ گئے۔

اب یاد رہے کہ دعوت اس نے دینی تھی۔ بن ٹھن کے ہم لوگ گئے، بیل اینڈ ٹیل ہوتا تھا ایک ریستوران، بیٹھے، گپیں مارتے رہے۔ ویٹر آیا، مینیو پیش کیا۔ ہم دونوں کو ایک ڈیل پسند آئی۔ منچورین، فرائیڈ رائس اور ڈھاکہ چکن  کی ڈیل تھی 345 روپے میں۔

ویٹر سر پہ کھڑا تھا کہ آرڈر دیں تاکہ وہ اگلی ٹیبل پہ جائے۔ میں نجف کو سمجھانے لگ گیا کہ یار 25 روپے میں ایک چکن بروسٹ آتا ہے، سکون سے جا کے وہ کھاتے ہیں۔ ادھر اتنے پیسے کیوں ضائع کرتا ہے۔

وہ کہتا ہے ’یار پیسے میں نے دینے تھے، ٹریٹ بھی میں دے رہا تھا، تو پتہ نئیں کیوں اتنا مچھر گیا (بِدک گیا ایک دم)، آرڈر دینے والا تھا میں، تُو نے باقاعدہ ویٹر سے یہ کہا کہ تمہاری ڈیل مہنگی ہے، ہم نہیں کھائیں گے، اور مجھے لال کانوں کے ساتھ باہر لے آیا۔ لوگ بھی سن رہے تھے سارے، پھر وہی نان اور بروسٹ کھایا تھا ہم نے۔‘

کیا مجھے بے عزتی کرانے کا شوق ہے جو اس قسم کے ذاتی کھاتے کھول کے بیٹھا ہوں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھائیو بات بڑی چھوٹی سی ہے۔ اندر کا درندہ بڑا ظالم ہوتا ہے، جتنا مرضی پالتے جاؤ، خوراکیں کھلاؤ، پالو، پوسو، اس نے ایک دن خود بندے کو کھا جانا ہوتا ہے۔ اسی درندے کا نام ’عزت‘ ہے، ’غیرت‘ ہے، ’انا‘ ہے، ’میں‘ ہے اور ’سیلف ریسپیکٹ‘ بھی وہی چیز ہوتی ہے۔

ہم لوگ اپنے آپ کو بہت زیادہ سیریس لے لیتے ہیں۔ انا کے چکر میں رشتے توڑ دیتے ہیں، نوکریاں چھوڑ دیتے ہیں، گھر توڑ دیتے ہیں، زندگی تباہ کر لیتے ہیں، پیسے گلا بیٹھتے ہیں، جب کہ تھوڑی سی ’بے عزتی‘ اگر بندہ برداشت کر لے تو الحمدللہ بڑی جگہوں پر بہت بڑی بڑی بچت ہو جاتی ہے۔

یہ ہمیں نہیں سکھایا جاتا۔ انسانی تاریخ ’بہادریوں‘ اور ’غیرتوں‘ سے عبارت ہے۔ ان دونوں چیزوں نے آج تک ہمیں دیا کیا ہے؟ ہر لیول پہ چھوٹی بڑی جنگیں؟ لڑائیاں؟ تباہیاں؟

’او میں تے دریا پی جاں، بُل فیر وی سکے دے سکے۔‘ (میں تو دریا بھی پورا پی جاؤں لیکن ہونٹ، وہ سوکھے کے سوکھے رہیں گے۔) یہ ایک گانے کے بول تھے۔ انسانی زندگی میں عزتوں، اناؤں، غیرتوں اور مردانہ رویوں کی کہانی بھی یہی ہے۔ پوری زندگی آپ ان رویوں کا پیٹ بھرتے ہیں اور پوری تب بھی نہیں پڑتی۔

کیا واقعی آپ اتنے اہم ہیں بھی؟ میرا ذاتی خیال آج تک وہی ہے۔ عزت آنی جانی چیز ہے، بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ