لال غبارہ اور ناممکن قسم کی ہیپی اینڈنگ

ہمیں یا تو غبارہ چھیننا پڑے گا، خود سے خریدنا پڑے گا یا پھر اپنے سارے غبارے ایک ایک کر کے دوسروں کے پیروں تلے کچلے جاتے دیکھنا ہو گا۔

دکان میں ایک بابا داخل ہوتا ہے اور بڑے اشتیاق سے پوچھتا ہے ’یہاں غبارے ملتے ہیں؟‘

دکاندار بہت غصے میں کہتا ہے کہ یار تم ہر دوسرے دن آتے ہو اور گھستے ساتھ غباروں کی فرمائش کرتے ہو۔ تمہیں پتہ ہے یہاں جگہ کم ہے، پھولے ہوئے غبارے میں کہاں رکھوں گا؟ اور تمہارے گھر میں تو بچے بھی کوئی نہیں ہیں، کیا کرتے ہو اتنے غباروں کا؟

بابا اصل میں پرانا گاہک ہوتا ہے اور مسٹر کِم کا دوست ہوتا ہے۔ بیوی اس کی فوت ہو گئی ہوتی ہے اور بچے اپنے اپنے کاموں سے لگ کے شہر سے دور جا چکے ہوتے ہیں۔

بابا کہتا ہے ’غبارے آس پاس ہوں تو مجھے لگتا جیسے میلے لگے ہوئے ہیں، میں خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتا۔‘

قسط ختم ہو جاتی ہے۔ یہ نیٹ فلکس کی سیریز  ’کمز کنوینی اینس‘ (Kim's Convenience) ہے۔

دو پیسے کی دھوپ، چار آنے کی بارش‘ میں بھی یہ ہوتا تھا کہ جیسے ہی کوئی اچھا سین ختم ہوتا، ایویں ایک رکشہ سڑک پہ کہیں سے آتا اور جاتا دکھا دیتے۔ اس رکشے میں اتنے سارے غبارے بھرے ہوتے کہ دونوں سائیڈوں سے ڈھیروں غبارے باہر لٹکتے نظر آ رہے ہوتے تھے۔ اکثر اس رکشے کو بس جاتے ہوئے بیک سائیڈ سے دکھاتے تھے۔

غباروں ہی پر بنی ایک فلم اور ہے جسے دیکھ بلکہ سمجھ لیں تو ساری بات پانی ہو جاتی ہے۔ دی ریڈ بلون (The Red Balloon)، یہ کوئی 35 منٹ کی فلم ہے۔ اس میں ایک بچہ ہوتا ہے اور اسے کہیں سے ایک لال غبارہ مل جاتا ہے۔ ساری فلم میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ باقی دنیا کس طرح سے اس کے لال غبارے کی دشمن ہے مگر وہ خود اور غبارہ بھی، ایک دوسرے کے بہترین دوست بن جاتے ہیں۔

ہماری خوشیاں غباروں کی طرح ہیں اور جو لوگ انہیں ہماری پہنچ میں نہیں دیکھنا چاہتے وہ اصل میں ہم سے ہمارا لال غبارہ چھین رہے ہوتے ہیں۔ ہر انسان کو پیدا ہوتے ہی فطرت اس کے حصے کی خوشیاں دیتی ہے مگر ساتھ ہی وہ لوگ بھی پیکج کا حصہ ہوتے ہیں جو ساری زندگی بندے سے یہ سب کچھ چھین کر اسے صرف دکھ پہنچاتے رہتے ہیں۔

پاسکل کی دادی فلم میں لال غبارہ اس سے چھین کے کھڑکی سے باہر پھینک دیتی ہیں۔ لیکن وہ چونکہ گیس والا جادوئی نما غبارہ ہوتا ہے تو نیچے جانے کی بجائے تھوڑا اوپر ہوتا ہے اور پھر پاسکل کے آس پاس منڈلاتا رہتا ہے۔ اس کا دھاگا ہماری 35 منٹ والی فلم کے ہیرو بچے پاسکل کی پہنچ سے بس تھوڑا دور ہوتا ہے۔ عین ویسے ہی جیسے ہماری خوشیاں بس ایک چھلانگ کی منتظر ہوتی ہیں۔ اندھی چھلانگ یا بہادر چھلانگ، جو بھی کہہ لیں۔

اب آ جائیں گھوم پھر کے اس بابے پر جس نے دکان مالک سے غبارہ مانگا تھا اور اس کے چِڑنے پر کہا تھا کہ غبارے آس پاس ہوں تو مجھے لگتا جیسے میلے لگے ہوئے ہیں۔ کہانی سمجھ میں آئی؟

ہم سے ہمارے غبارے چھین کے ہمیں بس ’بہترین اور کامیاب‘ بننے کی دوڑ میں چوبیس گھنٹے قلابازیوں پہ مجبور کر دیا جاتا ہے۔

سب سے پہلے گھر والے ہماری ’تربیت‘ کرتے ہیں، پھر سکول والے ہمیں ’ڈسپلن‘ سکھاتے ہیں، پھر نوکری یا کاروبار ہماری باقی ٹیڑھ بھی نکال دیتا ہے۔ یہ ساری دوڑ کس لیے ہوتی ہے؟ اس میں کہیں غبارے (یا خوشیاں) فٹ آتے ہیں؟

بالکل آتے ہیں۔ سکول جانے کی عمر سے پہلے۔ تین چار سال کی عمر تک شاید ہمارا ہر بچہ آزاد ہوتا ہے اس کے بعد چل سو چل سو چل، دے مار ساڑھے چار ۔۔۔ غبارے کب واپس ملتے ہیں؟ کبھی نہیں!

تو اس بابے کی طرح بڑھاپے میں غبارہ مانگ کر میلے کا احساس جگانے سے بہتر نہیں کہ ہمارا ہر دن نہ سہی، ویک اینڈ بھی چلیں نہ ہو، مہینے میں کوئی ایک دن میلہ ہو؟

اس رات اور اس دن ہم صرف وہ کریں جو ہمارا دل چاہے؟

دا ریڈ بلون فلم کے درمیان بالاخر آوارہ گھومتے بچوں سے چھپ چھپا کے بھاگتے پاسکل بے چارے کو لال غبارہ مل جاتا ہے۔ اب وہ گھر جاتے ہوئے بس میں سوار ہونے لگتا ہے تو بس کنڈکٹر اسے کہتا ہے کہ بیٹے سوری، آپ غبارے کے ساتھ بس میں نہیں جا سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں بس کنڈکٹر پھر ہمارے آس پاس کے مہربانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ لوگ جو کسی طرح سے ہمارے کچھ بھی کرنے دھرنے کے ذمہ دار نہیں، وہ بھی کم بخت اپنا چھوٹا سا رول کتنے بڑے ولن پن کے ساتھ نبھاتے ہیں!

اینڈ میں پتہ ہے کیا ہوتا ہے؟ ایک بچہ پاؤں رکھ کے پاسکل کا لال غبارہ پھاڑ دیتا ہے۔ اس کے بعد پھر آس پاس کے سارے علاقوں سے غبارے خود اپنے مالک بچوں سے دھاگے تُڑا کر آسمان کی طرف اٹھتے ہیں اور ایک جُھنڈ بنا کے ادھر پاسکل کے پاس پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ غریب زمین پہ بیٹھا اپنے تباہ شد لال غبارے کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔

وہ اتنے سارے غباروں کو دیکھتا ہے، ان سب کو اکٹھا کر کے ان کے دھاگے تھامتا ہے تو غبارے اُڑتے ہیں اور اس اپنے ساتھ لٹکاتے ہوئے آسمانوں میں کہیں لے جاتے ہیں۔ پاسکل دھواں اگلتے کارخانوں، سکول، آوارہ بچوں سب کو نیچے چھوڑ کے بہت اوپر پہنچ دکھائی دیتا ہے۔ 

یہ والی ہیپی اینڈنگ ہمارے لیے بہرحال کہیں نئیں ملے گی۔ ہمیں یا تو غبارہ چھیننا پڑے گا، اس بابے کی طرح خود سے خریدنا پڑے گا یا پھر اپنے سارے غبارے ایک ایک کر کے دوسروں کے پیروں تلے کچلے جاتے دیکھنا ہو گا۔

ایک طرف پاسکل ہے، ایک طرف وہ دکان میں آیا بابا اور ایک طرف غباروں سے بھرا رکشہ جو اطمینان سے ہر سین کے بعد جاتا نظر آتا ہے۔

غبارے اور خوشیوں کا تعلق شاید پیچیدہ ہو، اس پر سوال بھی کرنا ممکن ہے لیکن غبارے چھیننے والوں کو تو پہچان لیں کم از کم ۔۔۔ اور ان سے دور رہیں!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ