پہلگام حملہ: سیاحوں کو بچانے والے کشمیری کی اتحاد کی اپیل

پہلگام حملے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خوف پھیل چکا ہے جس سے وادی میں سیاحت شدید متاثر ہوئی ہے۔ سیاحوں کو بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالنے والے ایک کشمیری شہری نے کہا کہ اس وقت کشمیر کو ہمدردی اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔

رئیس احمد نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’ہم اپنی حفاظت کے بارے میں سوچنے کے لیے نہیں رُکے۔ ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ لوگوں کو بچانا ہے۔‘ (انڈپینڈنٹ کو فراہم کردہ)

اس لمحے جب پہلگام، کشمیر میں فائرنگ کی آوازیں گونجیں اور سیاحوں کو نشانہ بنایا جانے لگا، رئیس احمد اوپر کی جانب دوڑے۔ گولیوں سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ انہی کی سمت میں۔

35  سالہ رئیس احمد، جو گھوڑے پالنے والوں کی مقامی تنظیم کے سربراہ ہیں، اپنے دفتر میں موجود تھے جب انہیں خوبصورت اور دور افتادہ سبزہ زار بائیسرن میں دہشت گرد حملے کی خبر ایسی فون کال کے ذریعے ملی جس کے سگنل خراب تھے۔ تقریباً دو بج کر 35 منٹ کا وقت تھا۔

’یہاں حملہ ہوا ہے اور سیاحوں پر فائرنگ ہو رہی ہے۔‘ بس یہی الفاظ وہ سن پائے اور اس کے بعد کال کٹ گئی۔‘

22 اپریل کو اس مشہور سیاحتی مقام پر ہونے والے حملے میں 26 افراد جان سے گئے جن میں سے زیادہ تر ہندو سیاح تھے۔ حملے نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا اور انڈیا اور پاکستان کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہو گئے۔

اس دن مارے جانے والوں میں 28 سالہ سید عادل حسین شاہ بھی شامل تھے جو ’پونی گائیڈ‘ تھے اور اطلاعات کے مطابق وہ حملہ آوروں میں سے ایک سے بندوق چھیننے کی کوشش کے دوران گولی کا نشانہ بنے۔

رئیس احمد جو اس وقت تک حملے کی نوعیت سے بےخبر تھے، نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اس علاقے میں کوئی نیٹ ورک نہیں۔ میں کسی سے رابطہ نہ کر سکا تو میں چھ اور لوگوں کے ساتھ بائیسرن کی طرف دوڑ پڑا۔‘

وہاں پہنچنے پر ان کا سامنا ایک ہولناک منظر سے ہوا۔ چیختے چلاتے سیاح، زخمی ہائیکرز اور وادی کی تنہائی میں پھیلا خوف۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اپنی حفاظت کے بارے میں سوچنے کے لیے نہیں رُکے۔ ہمیں صرف یہ معلوم تھا کہ لوگوں کو بچانا ہے۔‘

ہمالیائی خطہ کشمیر ایٹمی طاقت کے حامل ہمسایہ ممالک انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو بڑی جنگوں اور کئی سرحدی جھڑپوں کا مرکز رہا ہے۔ دونوں اس پورے مسلم اکثریتی علاقے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اسے جزوی طور پر کنٹرول کرتے ہیں۔

اس حملے کی وجہ سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں نئی شدت آئی۔ نئی دہلی نے ہمسایہ ملک پر علاقے میں عسکریت پسند گروپوں کو پناہ دینے اور ان کی پشت پناہی کرنے کا الزام عائد کیا جب کہ اسلام آباد نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

جب رئیس احمد وہاں پہنچے تو حملہ آور غائب ہو چکے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے سب سے پہلے ان سیاحوں کو روکا جو سبزہ زار کی طرف جا رہے تھے اور انہیں واپس محفوظ مقام پر بھیجا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے تقریباً سو افراد کی مدد کی، اور انہیں حملے کی زد میں آنے سے بچایا۔

بائیسرن میں حملے کی جگہ تک سڑک کے ذریعے گاڑیوں کی رسائی ممکن نہیں، اور پہلے تربیت یافتہ طبی رضاکار وہاں فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچے۔ اس سے پہلے رئیس احمد اور چند مقامی رضاکاروں نے اپنے ٹٹوؤں کی مدد سے زخمی سیاحوں کو مشکل اور پتھریلے راستوں سے گزار کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’ہم نے زخم صاف کیے، پانی دیا، لوگوں کو نیچے اتارا۔ اپنی جان کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں تھا۔ ہم بس لگاتار چلتے رہے۔‘

رئیس احمد کہتے ہیں کہ 22 اپریل کو جو کچھ ہوا، وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ’وہ دن خوف ناک تھا۔ ہم سب کے لیے ایک سیاہ دن۔ ہم نے پہلگام میں کبھی ایسا خوف ناک منظر نہیں دیکھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حملے کے بعد انڈیا بھر میں اسلاموفوبیا پر مبنی بیانیے کی لہر امڈ آئی۔ خاندانوں اور محلوں کے وٹس ایپ گروپوں سے لے کر بڑے ٹی وی چینلز تک۔ رئیس احمد اس سانحے کی کسی بھی فرقہ وارانہ تعبیر کو مسترد کرتے ہیں۔

’اس دن میں نے کسی کا مذہب نہیں دیکھا۔ میں نے صرف انسان دیکھے۔ ہم سب انسان تھے جو دوسرے انسانوں کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

اور ان کا ملک کے لیے پیغام بالکل واضح ہے: ’اگر ہم آپس میں ہی لڑتے رہے تو ایک قوم کے طور پر پیچھے چلے جائیں گے۔‘

قتل عام کے بعد انڈیا بھر میں مقیم کشمیری مسلمانوں پر حملوں اور ہراسانی کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سب سے سنگین واقعہ پنجاب کے ڈیرہ بسی میں واقع یونیورسل گروپ آف انسٹی ٹیوشنز میں پیش آیا، جہاں 23 اپریل کو کشمیری طلبہ کو ان کے ہاسٹل کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

آن لائن گردش کرنے والی تشویش ناک ویڈیوز کے مطابق، طلبہ اور مقامی افراد کے ایک گروہ نے تیز دھار ہتھیاروں کے ساتھ ہاسٹل میں داخل ہو کر حملہ کیا۔

ایک طالب علم کو ویڈیو میں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’ان کے پاس چاقو ہیں۔ ہم یہاں محفوظ نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر حملہ ہو سکتا ہے۔‘ ویڈیو میں ان کے جسم پر واضح طور پر زخم اور پھٹے ہوئے کپڑے نظر آ رہے ہیں۔ کالج میں تقریباً 100 کشمیری طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

پنجاب کے پولیس سربراہ، گورو یادو، نے بعد میں کہا کہ انہوں نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور مقامی حکام کو قانونی کارروائی کی ہدایت کی۔

دا وائر کے مطابق یادو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’نفرت کو ہوا دینے یا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کسی بھی کوشش کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم تمام شہریوں سے اپیل کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ذمے داری کا مظاہرہ کریں۔ ایسی کوئی بھی چیز شیئر کرنے یا پھیلانے سے گریز کریں جو غلط معلومات پھیلائے یا انتشار کو ہوا دے۔‘

جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس وقت کہا کہ ان کی حکومت ان ریاستوں کے ساتھ رابطے میں ہے جہاں اس قسم کے تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’میں ان ریاستوں کے اپنے ہم منصب وزرائے اعلیٰ سے بھی رابطے میں ہوں اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ خصوصی توجہ دیں۔‘

اتحاد کی درخواست کرتے ہوئے رئیس احمد کہتے ہیں کہ انڈیا بھر میں کشمیری مسلمانوں کے خلاف اب جو نفرت اور تشدد جاری رہا ہے، وہ ان لوگوں کے زخموں کو اور گہرا کرتا ہے جنہوں نے سیاحوں کی جانیں بچانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔

رئیس احمد کے بقول: ’جب میں دہشت گرد حملے کی جگہ پر پہنچا تو میں وہاں ہیرو بننے نہیں گیا تھا۔ ہم نے جسے بچا سکتے تھے اسے بچایا۔ کسی سے اس کا مذہب نہیں پوچھا گیا۔‘

رئیس احمد اور دیگر پونی آپریٹرز کا دکھ ابھی ختم نہیں ہوا۔ روزگار ختم ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم روزانہ تقریباً چار ہزار روپے کماتے تھے۔ اب بمشکل 10 روپے بن پاتے ہیں۔ ہم اس حالت میں دو ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتے۔ پورا محلہ سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ جس بازار میں کبھی بہت رونق ہوتی تھی اب ویران پڑا ہے۔‘

رئیس احمد سیاحت کے شعبے سے گذشتہ 20 سال سے وابستہ ہیں۔ ’جب میں نے کام شروع کیا، تو میں دہاڑی دار مزدور تھا۔ 2002 کے بعد حالات بدلے۔ اور جب 2014 میں مودی حکومت آئی، تو سیاحوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ لیکن اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔‘

پھر بھی وہ ممکنہ سیاحوں سے التجا کرتے ہیں کہ آنا بند نہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر سیاح آنا چھوڑ دیں گے تو دہشت گرد کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر وہ واپس آئیں گے تو دہشت گرد ناکام ہو جائیں گے۔ میرے جیسے ہزاروں کشمیری نوجوان ان کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں۔‘

انہوں نے خبردار کیا کہ سیاحت نہ ہونے کی صورت میں وہ نوجوان جو اپنے روزگار کے لیے اس شعبے پر انحصار کرتے ہیں، خطرناک راستوں کی طرف جا سکتے ہیں۔ ’یہی تو حملہ آور چاہتے ہیں کہ نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھین لیا جائے۔ سیاحت ہی ہماری امید ہے۔‘

وہ اس حملے کی دوٹوک انداز میں مذمت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے مذہب میں ایسے عمل کی کوئی معافی نہیں۔ اسلام میں بے گناہ لوگوں کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا