پاکستانی فضائی حدود کی بندش، ایئر انڈیا کو 60 کروڑ ڈالر نقصان کا خدشہ

ایئرلائن نے مرکزی حکومت سے اس نقصان کے ازالے کے لیے معاوضہ دینے کی درخواست کی ہے۔

18 جنوری 2024 کی اس تصویر میں حیدرآباد کے بیگم پیٹ ہوائی اڈے پر ایئر انڈیا کا ایئربس اے 350 طیارہ کھڑا ہے (اے ایف پی)

ایئر انڈیا کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان کی فضائی حدود پر پابندی ایک سال تک برقرار رہی تو اسے 60 کروڑ ڈالر (تقریباً 50 ارب انڈین روپے) کے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔

روئٹرز کو موصول ہونے والے کمپنی کے ایک خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایئرلائن نے مرکزی حکومت سے اس نقصان کے ازالے کے لیے معاوضہ دینے کی درخواست کی ہے۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے بعد اسلام آباد کی جانب سے فضائی حدود کے استعمال پر پابندی کے بعد انڈین ایئرلائنز کو ایندھن کے زیادہ اخراجات اور پرواز کے طویل اوقات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ایئر انڈیا نے 27 اپریل کو انڈین حکومت سے مطالبہ کیا کہ اقتصادی نقصان کے تناسب سے ایک ’سبسڈی ماڈل‘ اپنایا جائے۔

کمپنی کے مطابق اگر یہ پابندی سال بھر جاری رہی تو اسے 591 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوگا۔ ایئر انڈیا کی جانب سے یہ خط انڈیا کی وزارت ہوا بازی کو بھیجا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ’متاثرہ بین الاقوامی پروازوں کے لیے سبسڈی دینا ایک اچھا، قابلِ عمل اور منصفانہ حل ہے۔ یہ سبسڈی صورت حال بہتر ہونے پر ختم کی جا سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خط میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے سب سے زیادہ اثر ایئر انڈیا پر پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے طیارے اضافی ایندھن استعمال کر رہے ہیں اور اس کے لیے اضافی عملہ بھی درکار ہے۔‘

ایئر انڈیا نے اس معاملے پر روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست پر جواب دینے سے انکار کر دیا جبکہ انڈین وزارت ہوا بازی نے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

ذرائع کے مطابق یہ خط اس وقت لکھا گیا جب حکومت نے ایئرلائن کے اعلیٰ حکام سے پابندی کے اثرات کا جائزہ لینے کو کہا تھا۔

ایئر انڈیا، جو اب ٹاٹا گروپ کی ملکیت ہے، سرکاری دور کے بعد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ اپنی بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے تاہم بوئنگ اور ایئربس کی جانب سے جیٹ طیاروں کی فراہمی میں تاخیر کے باعث اس کی ترقی کی رفتار سست ہے۔

مالی سال 24-2023 میں کمپنی کو 520 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا جبکہ اس کی آمدن 4.6 ارب ڈالر رہی۔

انڈیا کے اندر 26.5 فیصد مارکیٹ شیئر رکھنے والی ایئر انڈیا یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے لیے پروازیں چلاتی ہے اور ان میں سے کئی پروازیں پاکستان کی فضائی حدود سے گزرتی ہیں۔ یہ اپنی حریف ایئرلائن انڈیگو کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل فاصلے کی پروازیں آپریٹ کرتی ہے۔

’سیریم ایسیند‘ تنظیم کے ڈیٹا کے مطابق اپریل میں نئی دہلی سے یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ کے لیے ایئر انڈیا، انڈیگو اور اس کی بجٹ یونٹ ’ایئر انڈیا ایکسپریس‘ کی مشترکہ طور پر تقریباً 1200 پروازیں شیڈول تھیں، جنہیں پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا تھا۔

اس معاملے سے واقف تین دیگر عہدیداروں کے مطابق انڈین حکومت پاکستان کی فضائی حدود کی بندش سے ایئرلائن انڈسٹری پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔

ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ انڈین ایئر لائنز نے وزارتِ ہوا بازی کے ساتھ ملاقات کی تاکہ ممکنہ حل تلاش کیے جا سکیں، جن میں چین کے اوپر سے مشکل راستوں سے گزرنے کے امکانات اور کچھ ٹیکس چھوٹ شامل ہیں۔

ایئر انڈیا نے اپنے خط میں حکومت سے درخواست کی کہ وہ کچھ راستوں کے لیے چینی حکام سے اجازت حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے تاہم اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں دی گئیں۔

ایئر انڈیا نے یہ بھی درخواست کی کہ امریکہ اور کینیڈا جانے والی پروازوں میں طویل مدت کے سفر کو مدنظر رکھتے ہوئے اضافی پائلٹوں کو لے جانے کی اجازت بھی دی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا