’8 سے 10 ارب ڈالر کا خرچہ‘: کیا لاہور سے راولپنڈی بلٹ ٹرین چل پائے گی؟

پنجاب حکومت نے فضا میں بلند پرواز، زمین پر تیز ترین رفتار پاکستان کی پہلی صوبائی ایئر لائن اور پاکستان کی پہلی بلٹ ٹرین منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پنجاب حکومت کے لاہور سے راولپنڈی بلٹ ٹرین منصوبے کا ایک تصویری ماڈل جو پاکستان مسلم لیگ ن رہنما دانیال چوہدری نے اپنے ایکس اکاونٹ سے شیئر کیا۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے رواں ہفتے لاہور سے راولپنڈی بلٹ ٹرین چلانے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد سے اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ماہرین کی رائے لی جو مجموعی طور پر یہ تھی کہ موجودہ انفرا سٹرکچر اس قابل نہیں کہ بلٹ ٹرین چلائی جاسکے۔ اس طویل ٹریک پر تیز ترین ٹرین چلانے کے لیے علیحدہ سے انتظامات کرنا ہوں گے جو فی الحال ممکن دکھائی نہیں دیتے۔

تاہم پنجاب حکومت نے بلت ٹرین منصوبے کی منظوری دی جا چکی ہے۔

اس بارے میں ہفتے کے روز میڈیا سے گفتگو میں سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’بلٹ ٹرین کا آغاز کر کے نواز شریف اور مریم نواز اپنے ایک اور وعدے کو پورا کریں گے۔ منصوبے کی فیزیبلٹی اور ٹائم لائن کی تیاری کے لیے ورکنگ گروپ بنا دیا گیا ہے۔  نئے ریل روٹس، ریل نیٹ ورک اور پٹری سے متعلق ورکنگ گروپ سے بریفنگ لی ہے۔ اس دوران موصول تجاویز آئندہ ہفتے وزیرِ اعلیٰ کو پیش کریں گے۔‘

اس حوالے سے ترجمان ریلوے بابر رضا نے جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ریلویز بلٹ ٹرین منصوبے بارے تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔‘

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کے تحت مین لائن ون منصوبے کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر راجہ ساجد بشیر نے جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بلٹ ٹرین منصوبہ لاہور سے راولپنڈی تک مکمل کرنے کے لیے آٹھ سے 10 ارب امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔ ہمارے تو پہلے ٹریک ٹھیک نہیں جن پر 160کی سپیڈ سے ہی ٹرین چل سکے۔ پورا انفراسٹکچر نیا بنانا ہو گا۔‘

بلٹ ٹرین منصوبے کی حکمت عملی کیا ہے؟

پنجاب حکومت نے فضا میں بلند پرواز، زمین پر تیز ترین رفتار پاکستان کی پہلی صوبائی ایئر لائن اور پاکستان کی پہلی بلٹ ٹرین منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس منصوبے کی تکمیل کے لیےاعلی سطحی ورکنگ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے مریم اورنگزیب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’بلٹ ٹرین کے ذریعے لاہور سے راولپنڈی کے سفر کا دورانیہ تقریباً اڑھائی گھنٹے تک رہ جائے گا- پاکستان ریلوے کے اشتراک سے تیز ترین بلٹ ٹرین چلانے کے لیے مختلف آپشنز کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بلٹ ٹرین پروجیکٹ کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے آپشن پر بھی غورکیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے پاکستان کی پہلی بلٹ ٹرین پروجیکٹ کے آغاز کے لیے اقدامات مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘

مریم اورنگزیب نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی زیر صدارت اجلاس میں پنجاب کے مزید چھ روٹس پر ہائی سپیڈ ٹرین کے لیے پلان طلب کر لیا گیا-لاہور سے شاہدرہ اور نارووال تک ہائی سپیڈ ٹرین چلائی جائے گی-

’لاہور سے رائیونڈ، قصور، پاکپتن سے لودھراں تک ہائی سپیڈ ٹرین چلے گی- قلعہ شیخوپورہ، جڑانوالہ سے شور کوٹ تک ہائی سپیڈ ٹرین کا روٹ ہو گا- ہائی سپیڈ ٹرین شور کوٹ سے جھنگ اور جھنگ سے سرگودھا چلائی جائے گی-لالہ موسیٰ سے سرگودھا براستہ ملکوال ہائی سپیڈ ٹرین چلائی جائے گی- فیصل آباد سے چک جھمرہ اور شاہین آباد تک ہائی سپیڈ ٹرین کا روٹ ہو گا۔‘

اس منصوبے پر اخراجات کے لیے فنڈز اور منصوبے کی تکمیل سے متعلق تفصیل جاننے کے لیے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری سے رابطہ کی کوشش کی گئی لیکن بات نہیں ہو سکی۔

بلٹ ٹرین منصوبہ کتنا قابل عمل ہو گا؟

جب سابق ڈائریکٹر ساجد بشیر سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ، ’ہمارے ملک میں حکومتیں کئی ایسے منصوبوں کا اعلان کر دیتی ہیں جن کا مکمل ہونا مشکل ہوتا ہے۔ جس طرح ایم ایل ون 2015 میں منصوبہ کا اعلان ہوا پی سی ون بھی بن گیا لیکن منظور 2020 میں ہوا۔ اس منصوبے پر پشاور سے کراچی تک مین لائن بننا تھی اور سٹیشنز کی اپ گریڈیشن ہونا تھی۔ مگر بدقسمتی اور وسائل کی کمی کے باعث ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’چین سے پاکستان نے اس منصوبے پر خرچ کرنے کے لیے آٹھ ارب ڈالر قرض کی صورت میں لینا تھے لیکن حکومتیں بدلتی رہیں آج تک یہ رقم ہمیں نہیں مل سکی۔‘

بقول ساجد ’یہ کہنا یا اعلان کرنا بہت آسان ہے لیکن زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے عملی جامع پہنانا ممکن نہیںاگر نئے سرے سے پورا پروجیکٹ تیار کرتے ہیں تو رقم کہاں سے آئے گی؟ پھر لاہور سے راولپنڈی تک سینکڑوں کراسنگز ہیں۔ تین دریاؤں چناب، راوی اور جہلم پر پل بنانا ہوں گے۔ دینہ اور جہلم سے آگے ناہموار زمین پر ٹریک بچھانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔‘

’نئے سرے سے ٹریک بنانے، کراسنگ کی جگہ پل بنانے یا آبادی والے ایریاز میں انڈر گراوند کرنے۔ دریاوں پر پل بنانے اور ریلوے سٹیشنوں سے اسے منسلک کرنے پر اربوں ڈالر خرچ ہوگا۔ پنجاب حکومت یا ریلوے اپنے وسائل سے تو یہ منصوبہ مکمل نہیں کر سکتے۔ ابھی تک کسی ملک کی جانب سے اس حوالے سے فنڈنگ یا قرض بارے کوئی معلومات نہیں ہیں۔ ملکی معاشی سورتحال ایسی نہیں کہ خزانے سے اتنا پیشہ نکال کر اس منصوبے پر خرچ کر دیا جائے۔‘

ساجد بشیر کے مطابق ’یہ منصوبہ پاکستان میں پہلی بار لایا جارہا ہے اس کے لیے ماہرین اور انجینیئر بھی دوسرے ملک سے لانا پڑیں گے۔ پھر اس لائن پر چلنے والی ٹرینوں کی دیکھ بھال کا نظام بھی الگ سے بنانا ہوگا۔ لہذا حکومت کو چاہیے موجودہ ریل کے نظام کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دیں تو زیادہ لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔‘

اورنج لائن منصوبے کے اخراجات پر رپورٹ جمع

دوسری جانب اورنج لائن ٹرین منصوبے پر لاگت کی تفصیلات پنجاب اسمبلی میں پیش کر دی گئیں۔

واضح رہے کہ 2019 میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے لاہور میں بننے والی اورنج لائن ٹرین منصوبے پر اخراجات کی تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں۔

رپورٹ کے مطابق منصوبے پر ایک ارب 22 کروڑ ڈالر کی رقم خرچ ہوئی اور یہ منصوبہ پانچ سال میں مکمل ہوا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اورنج لائن منصوبے کی تعمیرکے دوران 14 انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ مرنے والے افراد کے لواحقین کو فی کس 21 لاکھ 78 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے ایک ہزار 65 کنال رقبہ اراضی ایکوائر کی گئی۔

’سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے اورنج لائن منصوبے کا کل تخمینہ ایک کھرب 65 ارب روپے لگایا تھا تاہم منصوبے میں رکاوٹوں کے باعث یہ تاخیر کا شکار ہوگیا اور اس کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ اورنج لائن ٹرین کا روٹ ٹھوکر نیاز بیگ سے براستہ چوبرجی ریلوے سٹیشن، جی ٹی روڈ، قائد اعظم انٹر چینج تک ہو گا۔ روٹ کا فاصلہ 27 کلومیٹر ہو گا، 24 کلومیٹر ایلی ویٹیڈ، دو کلومیٹر انڈر گراؤنڈ تک ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان