پہلگام واقعہ مغربی محاذ سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کی حکمت عملی ہے: کور کمانڈرز

کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستان میں ’دہشت گردی کی انڈین سرپرستی‘ کے مصدقہ شواہد پر تشویش کے اظہار کے ساتھ انہیں عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

راولپنڈی میں جمعے کو پاکستان فوج کے مرکزی دفتر میں منعقد ہونے والی خصوصی کور کمانڈر کانفرنس کی صدارت چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کر رہے ہیں (آئی ایس پی آر)

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی سے متعلق دو مئی 2025 کی اپ ڈیٹس

 


رات 7 بج کر 32 منٹ

پہلگام واقعہ پاکستان کی توجہ مغربی محاذ اور معاشی ترقی سے ہٹانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے: کور کمانڈرز

پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام کا واقعہ پاکستان کی توجہ مغربی محاذ اور اقتصادی بحالی کی قومی کوششوں سے ہٹانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔

راولپنڈی میں جمعے کو پاکستان فوج کے مرکزی دفتر میں منعقد ہونے والی خصوصی کور کمانڈر کانفرنس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دو محاذ جہاں پاکستان فیصلہ کن اور پائیدار بنیاد حاصل کر رہا ہے وہاں اس کی توجہ مغربی محاذ اور معاشی ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ہٹانے کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پہلگام جیسا واقعہ سامنے لایا جا رہا ہے جو انڈیا کا وطیرہ ہے۔

کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’انڈین دہشت گرد پراکسیوں کو عملی لحاظ سے سانس لینے کی جگہ فراہم کرنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔‘

کور کمانڈر کانفرنس کی صدارت چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کی۔

فورم نے موجودہ جیو اسٹریٹجک ماحول کا ایک جامع جائزہ لیا، خاص طور پر وسیع تر علاقائی سلامتی کے تناظر میں موجودہ پاکستان انڈیا تناؤ کا جائزہ لیا گیا۔

نیشنل سکیورٹی فورم نے پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے۔

چیف آف آرمی اسٹافجنرل عاصم منیر نے افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت، بلند حوصلے اور مکمل تیاری کو سراہا اور کہا کہ ’پاک فوج پوری قوم کے ساتھ کھڑی ہو کر مادرِ وطن کا ہر قیمت پر دفاع کرے گی۔‘

فورم میں تمام محاذوں پر چوکسی اور پیشگی تیاری کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

اس کے علاوہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انڈیا کے بڑھتے ہوئی مظالم، خاص طور پر حالیہ پہلگام واقعے کے بعد اور لائن آف کنٹرول پر معصوم شہریوں کو نشانہ بنائے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔

فورم نے واضح کیا کہ ایسے غیر انسانی اور بلااشتعال اقدامات خطے میں کشیدگی میں اضافہ کرتے ہیں جن کا پاکستان مؤثر اور بھرپور جواب دے گا۔

فورم نے اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی کہ ’انڈیا بحرانوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے سیاسی و عسکری مقاصد حاصل کرتا ہے۔ 2019 میں پلوامہ واقعے کو بنیاد بنا کر انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی اور اب پہلگام واقعے کو استعمال کرتے ہوئے انڈیا پاکستان کے پانی کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنا 24 کروڑ پاکستانیوں کے معاش اور پانی تک رسائی پر حملہ ہے۔‘

کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستان میں ’دہشت گردی کی انڈین سرپرستی‘ پر مبنی مصدقہ شواہد پر بھی گہری تشویش ظاہر کی گئی اور انہیں عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

فورم نے پاکستان کے امن، استحکام اور خوشحالی کے پائیدار عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان بھرپور اور یقینی جواب دے گا۔ ’پاکستانی عوام کی امنگوں کا ہر حال میں احترام کیا جائے گا انشاءاللہ۔‘

فورم نے کہا کہ ’پاکستان کا ترقی اور امن کا سفر دہشت گردی، دباؤ یا جارحیت سے نہیں رُکے گا، چاہے وہ براہ راست ہو یا پراکسی کے ذریعے۔ انڈیا کی جانب سے دانستہ عدم استحکام کی کوششوں کو پوری قوت اور وضاحت سے ناکام بنایا جائے گا۔‘

فورم کا اختتام چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے تمام عسکری و دفاعی یونٹس کی تیاری، دفاعی پوزیشن اور حوصلے پر مکمل اعتماد کے اظہار کے ساتھ ہوا۔


شام 4 بج کر 40 منٹ

سعودی عرب، یو اے ای کشیدگی میں کمی کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالیں: شہباز شریف

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سے جمعے کو سعودی کے سفیر نواف بن سعید المالکی اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے سفیر حماد عبید ابراہیم سالم الزابی سے الگ ملاقاتوں میں برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے انڈیا پر دباؤ ڈالیں۔

ایوان وزیر اعظم سے جمعے کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات کی جس میں ’انہوں نے سعودی عرب سمیت برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان پر دباؤ ڈالیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی خواہش کا اعادہ کیا۔‘

ملاقات کے دوران وزیراعظم نے سعودی قیادت اور عوام کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

بیان کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام کے حملے کے بعد جنوبی ایشیا میں امن و امان کی موجودہ صورت حال پر پاکستان کا مؤقف بیان کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کی ہے۔ ’پاکستان نے گذشتہ برسوں میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی قربانیاں دی ہیں جو کہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے تحفظ کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی ہیں۔‘

انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے پہلگام واقعے سے پاکستان کو جوڑنے کے بے بنیاد بھارتی الزامات کو یکسر مسترد کیا اور واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’سعودی عرب سمیت دوست ممالک کے تعاون سے گذشتہ 15 ماہ کی محنت سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد، پاکستان کی کامیابیوں کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ سے ہٹانے کی بھارتی کوششیں ناقابل فہم ہیں۔‘

سعودی سفیر نے اس اہم معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سعودی عرب خطے میں امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے سفیر سے ملاقات کے بعد جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے ’متحدہ عرب امارات سمیت برادر ممالک پر زور دیا کہ وہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہندوستان کو مائل کریں۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے قیام کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔

بیان کے مطابق گزشتہ برسوں میں 90,000 ہلاکتوں اور 152 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کے معاشی نقصانات کے حوالے سے بے پناہ قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان اپنے مغربی محاذ سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کی عفریت سے نمٹ رہا ہے۔ بھارت کے حالیہ اقدامات اور اس کے جارحانہ انداز کا مقصد پاکستان کی توجہ دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششوں سے ہٹانا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس واقعے کی قابل اعتماد، شفاف اور غیر جانبدار بین الاقوامی تحقیقات کی ضرورت ہے۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کبھی بھی ایسا اقدام نہیں کرے گا جس سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرہ ہو۔


دن 12 بج کر 35 منٹ

انڈیا سے کشیدگی: پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں کو خوراک ذخیرہ کرنے کی ہدایت

پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے جمعے کو لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب رہنے والے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ خوراک کا ذخیرہ کر لیں۔

انڈیا نے 22 اپریل کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے، جس میں 26 افراد مارے گئے۔ اسلام آباد نے یہ الزام مسترد کر دیا ہے۔

انڈین فوج کے مطابق دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان واقع لائن آف کنٹرول پر مسلسل آٹھ راتوں تک فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

کشیدگی کے شکار ہمسایہ ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف جوابی سفارتی اقدامات کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے جمعے کو مقامی اسمبلی کو بتایا: ’لائن آف کنٹرول سے متصل 13 حلقوں میں دو ماہ کی خوراک کا ذخیرہ کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایک ارب روپے (35 لاکھ ڈالر) کا ہنگامی فنڈ بھی قائم کر دیا ہے تاکہ ان 13 حلقوں میں ’خوراک، ادویات اور دیگر تمام بنیادی ضروریات‘ کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔

وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے مزید کہا کہ ایل او سی سے متصل علاقوں میں سڑکوں کی بحالی کے لیے سرکاری اور نجی  مشینری بھی موقعے پر پہنچائی جا رہی ہے۔

انڈین کشمیر میں حملے اور اس کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی، بشمول سفارتی عملے کی بے دخلی اور سرحدی راستوں کی بندش، نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک ممکنہ تصادم کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔

انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے منگل کو فوج کو حملے کے جواب میں ’مکمل آپریشنل آزادی‘ دی تھی۔

پاکستان نے کسی بھی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پاس ’قابل اعتماد شواہد‘ موجود ہیں کہ انڈیا فوری فوجی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ساتھ ہی انڈیا کو خبردار کیا گیا کہ کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

عسکری کارروائی کے خدشے کے پیش نظر، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام نے جمعرات کو 10 دن کے لیے ایک ہزار سے زائد دینی مدارس بھی بند کر دیے۔

انڈیا اور پاکستان، جو دونوں کشمیر پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں، 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد سے اس ہمالیائی خطے پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔


صبح نو بج کر 50 منٹ

پاکستان انڈیا کشیدگی کا ’جائزہ‘ جاری، جلد اجلاس بلا سکتے ہیں: صدر یو این سلامتی کونسل

یونان سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مئی کے لیے صدر ایوانجی لوس سیکیرس نے جمعرات کو کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سنگین صورت حال پر غور کے لیے 15 رکنی کونسل ’جلد از جلد‘ اجلاس منقعد کرے گی تاکہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی سے نمٹا جا سکے۔

رواں مہینے کے لیے کونسل کے کام کے بارے میں بریفنگ دینے کے لیے ہونے والی ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ’یہ صورت حال جاری ہے۔ تبدیل ہو رہی ہے (اور) ہم بہت قریب سے اسے سن رہے اور جائزہ لے رہے ہیں۔‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا دونوں ملکوں میں سے کسی فریق نے اس معاملے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی ہے، تو کونسل کے صدر نے جواب دیا کہ صورت حال پر نظر رکھی جا رہی ہے اور ’ہم اس معاملے کو ضرور زیر غور لائیں گے۔ یہ طے ہے کہ ایسا ہو گا۔‘

اس حوالے سے انہوں نے گذشتہ ہفتے جاری کیے گئے سلامتی کونسل کے میڈیا بیان کا حوالہ دیا، جس میں اس ’دہشت گرد‘ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے محاسبہ اور بین الاقوامی تعاون یقینی بنایا جائے۔

ایوانجی لوس سیکیرس نے کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ بڑی رکن ریاستیں دونوں فریقین سے پہلے ہی رابطے میں ہیں۔ اگر کشیدگی میں کمی نہ آئی، تو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانا ایک ممکنہ نتیجہ ہو سکتا ہے کیوں کہ درحقیقت یہی سلامتی کونسل کا بنیادی کام ہے۔‘ انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ پاکستان اس وقت کونسل کا غیر مستقل رکن ہے۔

کونسل کے صدر نے اس بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ دو بڑے رکن ملک اس کشیدگی کا شکار ہیں، کہا: ’آپ جانتے ہیں کہ بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے اور ہمیں امید ہے کہ کشیدگی کم کروانے کی کوششیں مؤثر ثابت ہوں گی، لیکن ہم بلاشبہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم بھی کشیدگی میں کمی اور بات چیت کی اپیلوں میں شامل ہیں تاکہ صورت حال بے قابو نہ ہو۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کونسل کا اجلاس ’جلد از جلد‘ بلایا جا سکتا ہے۔


صبح 7 بج کر 15 منٹ

امید ہے پاکستان عسکریت پسندوں کی تلاش میں انڈیا سے تعاون کرے گا: امریکہ

امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے جمعرات کو کہا ہے کہ واشنگٹن کو امید ہے کہ پاکستان ملک میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں انڈیا کے ساتھ تعاون کرے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ حملے کے جواب میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے، جو خطے میں وسیع تنازعے کا باعث بنے۔

امریکی نائب صدر نے فاکس نیوز کے پروگرام ’سپیشل رپورٹ ود بریٹ بیئر‘ میں انٹرویو کے دوران کہا: ’ہمیں امید ہے کہ انڈیا اس دہشت گرد حملے کا ایسا جواب دے گا جو کسی بڑے علاقائی تنازعے کا سبب نہیں بنے گا اور ہم واضح طور پر یہ بھی امید کرتے ہیں کہ پاکستان، جتنا بھی وہ ذمہ دار ہے، انڈیا کے ساتھ تعاون کرے تاکہ وہ دہشت گرد، جو بعض اوقات اس کی سرزمین پر سرگرم ہوتے ہیں، انہیں تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔‘

امریکہ کے بڑے رہنما، جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں،  22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حملے، جس میں 26 افراد جان سے چلے گئے تھے، کی مذمت کر چکے ہیں اور انہوں نے اسے ’دہشت گردی‘ اور ’ناقابلِ معافی‘ قرار دیتے ہوئے انڈیا سے اظہارِ یکجہتی کیا، تاہم پاکستان پر براہ راست الزام نہیں لگایا۔

انڈیا، امریکہ کا ایک اہم شراکت دار ہے کیوں کہ واشنگٹن چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب اگرچہ 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کی اہمیت کم ہو گئی ہے، تاہم وہ اب بھی واشنگٹن کا اتحادی ہے۔

گذشتہ چند دنوں میں واشنگٹن نے انڈیا اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور ایک ’ذمہ دارانہ حل‘ تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔

انڈیا نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا ہے جبکہ اسلام آباد نے اس کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

حملے کے بعد نہ صرف انڈیا نے پانی کی تقسیم سے متعلق معاہدہ معطل کر دیا اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی ایئرلائنز کے لیے فضائی حدود بند کر دیں بلکہ سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ان دونوں ایشیائی ہمسایہ ممالک سے مختلف سطحوں پر رابطے میں ہے۔ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کو انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف سے فون پر بات چیت بھی کی۔

ہندو قوم پرست انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے ذمہ داروں کو سزا دینے کا عزم ظاہر کیا جب کہ جے شنکر نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے کہا کہ حملہ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا۔

دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کا خدشہ فوری نوعیت کا ہے۔

مسلمان اکثریتی کشمیر پر انڈیا اور پاکستان دونوں مکمل دعویٰ کرتے ہیں اور اس تنازعے پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔


صبح 6 بج کر 30 منٹ

انڈیا واہگہ سرحد عبور کرنے کی اجازت دے تو شہریوں کو  وصول کرنے کو تیار ہیں: پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ کچھ پاکستانی شہری اٹاری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر انڈین حکام انہیں اپنی طرف سے واہگہ بارڈر عبور کرنے کی اجازت دیں تو ہم اپنے شہریوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جمعرات کی شب جاری کیے گئے بیان میں ترجمان شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ واہگہ بارڈر آئندہ بھی پاکستانی شہریوں کے لیے کھلا رہے گا۔ 

واہگہ بارڈر کے راستے انڈیا سے واپس آنے والے پاکستانی شہریوں کی آمد کے حوالے سے میڈیا کے سوالات کے جواب میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا: ’اس تناظر میں ہمیں میڈیا رپورٹس کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ کچھ پاکستانی شہری اٹاری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر انڈین حکام انہیں اپنی طرف سے بارڈر عبور کرنے کی اجازت دیں تو ہم اپنے شہریوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے فیصلے سے شدید انسانی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بہت سے مریض جن کی صحت کی صورت حال نازک ہے، انہیں اپنا علاج مکمل کیے بغیر ہی پاکستان واپس لوٹنا پڑا۔ مزید برآں ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ خاندان تقسیم ہو گئے اور کئی بچے اپنے والدین میں سے کسی ایک سے جدا ہو گئے ہیں‘

یاد رہے کہ واہگہ-اٹاری بارڈر عبور کرنے کی آخری تاریخ 30 اپریل 2025 تھی۔


یکم مئی 2025 کی اپ ڈیٹس کے لیے یہاں کلک کریں

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا