سپریم کورٹ نے جمعرات کو ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تین ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئین اور قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب تک صدر فیصلہ نہیں کرتے جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ رہیں گے۔‘
عدالت نے تین دو کی تناسب سے فیصلہ دے کر ٹرانسفر کو درست قرار دیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی درخواست خارج کر دی۔
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ ’ججوں کا ٹرانسفر عارضی ہے یا مستقل صدر کو یہ معاملہ بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سینیارٹی کا معاملہ بھی صدر کو بھجوایا جاتا ہے، صدر مملکت سینیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس صلاح الدین پنہور نے اکثریتی فیصلے سے اتفاق کیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے فیصلے سے اختلاف کیا۔
عدالت نے تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر جمعرات کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد شامل ہیں۔
جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محمد آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کی اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوئی تھی۔ جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینیئر قرار دے کر اسلام آباد ہائی کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس تعینات کیا گیا، جبکہ ان کے تبادلے سے قبل جسٹس محسن اختر کیانی سینیئر ترین جج تھے جنہوں نے جسٹس عامر فاروق کے سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد چیف جسٹس بننا تھا۔
تین ججز کی ٹرانسفر کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کے خلاف بانی پی ٹی آئی، کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔
دوران سماعت عدالت عظمی کے اہم آئینی سوالات:
دوران سماعت بینچ کے سربراہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’اس کیس میں دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ ہے کہ ججز کا تبادلہ ہوا، دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ججز کی سینیارٹی کیا ہو گی؟ ایک بات واضح ہے کہ سول سروس ملازمین کے سینیارٹی رولز یہاں اپلائی نہیں ہوں گے اب دیکھنا یہ ہے کیا سینیارٹی پرانی ہائی کورٹ والی چلے گی؟ دوسرا سوال ہے کہ کیا تبادلے کے بعد نئی ہائی کورٹ سے سینیارٹی شروع ہو گی؟‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے بھی ججز تبادلے پر اہم سوالات اٹھائے اور کہا کہ ’اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا سکوپ موجود ہے؟‘
درخواست گزاروں کے وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا ذکر ہے۔‘
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ’جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائی کورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟‘
اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حلف اٹھاتے ’اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری‘ کا ذکر آتا ہے۔‘
جسٹس نعیم اخترافغان نے مزید کہا کہ ’14 ججز چھوڑ کر 15ویں نمبر والے جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ ٹرانسفر ججز کے لیے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا۔ اس کیس میں صورت حال مختلف ہے۔ ون یونٹ پر نئی عدالتی تشکیل ہوئی۔ ون یونٹ کی تحلیل پر بھی نئی ہائی کورٹس تشکیل ہوئیں۔ یہاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلہ پر کوئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے اس موقع پر کہا کہ ’ہم جب عارضی جج بنتے ہیں تو حلف ہوتا ہے مستقل ہونے پر دوبارہ ہوتا ہے، سینیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سینیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سینیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہو جائے گی۔‘
کیس میں دوران سماعت وکلا کی جانب سے کون سے نکات اٹھائے گئے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کے وکیل منیر اے ملک اور بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹ کے ججوں کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ ’آپ کا اعتراض تبادلے پر ہے یا سنیارٹی میں تبدیلی پر؟‘
جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’ہمارا اعتراض دونوں معاملات پر ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے انہیں کہا کہ ’جج کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت ہوا وہ پڑھ دیں۔‘ منیر اے ملک نے عدالتی ہدایت پر آرٹیکل 200 پڑھ دیا۔
منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’جج کا تبادلہ صرف عارضی طور پر ہو سکتا ہے مستقل نہیں، ہمارا اعتراض یہ ہے۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے جواباً کہا کہ ’ایسا ہوتا تو آئین میں لکھا جاتا وہاں تو عارضی یا مستقل کا ذکر ہی نہیں، آئین میں صرف اتنا لکھا ہے کہ صدر پاکستان جج کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔‘
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز اور عمران خان کے وکیل ادریس اشرف نے بھی اس کیس میں دلائل دیے۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میری دلیل اتنی ہے کہ ماضی میں ہمیشہ ججز کی گذشتہ سروس اور ٹرانسفر کو تسلیم کیا گیا۔ پرویز مشرف کے سنگین غداری ٹرائل کے لیے سپیشل کورٹ تشکیل ہوئی۔ تین ہائی کورٹس کے ججز کو سپیشل کورٹ کا جج بنایا گیا۔ تینوں ججز میں جو سینیئر ترین جج تھا اس کو عدالت کا سربراہ بنایا گیا۔‘