جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے!

جنگ چھیڑنا آسان ہوتا ہے لیکن جنگیں شروع کرنے والوں کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ جنگ کے اثرات کتنے گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔

پاکستان کے علاقے جہلم میں یکم مئی 2025 کو انڈیا کے ممکنہ حملے کے پیشِ نظر فوجی مشق ’ہیمر سٹرائیک‘ (آئی ایس پی آر)

ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا: جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے / جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی!

جنگی جنون میں مبتلا ممالک جب ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں تو مجھے بطور انسان ڈر لگتا ہے۔ خون چاہیے مشرق میں بہے یا مغرب میں ہے تو لہو کا ایک ہی رنگ ہے اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔

پر دنیا میں ہی موجود کچھ انسان سفاکی میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ ان میں احساس مرجاتا ہے۔ ان کی نفرت غصے تلوار گولی ٹینک جہاز کے میزائل کی زد میں ہر کوئی آتا ہے۔ گولی جس رفتار سے ہتھیار سے نکلتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ سامنے کون ہے، بس وہ اپنا نشانہ لے کر سامنے موجود شخص کو مار دیتی ہے۔ نہ گولی بنانے والا یہ سوچتا ہے نہ چلانے والا یہ سوچتا ہے کہ جو گولی کھانے والا تھا وہ کتنے رشتوں میں بندھا ہوا تھا، کتنے لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا، کتنی لوگوں کے خواب اس سے وابستہ تھے اور کتنے لوگ اس کو دیکھ کر دم بھرتے تھے۔

کہنے کو تو ایک شخص دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ اس کا خاندان بھی دنیا میں جیتے جی درگور ہو جاتا ہے۔ جب جنگ ہوتی ہے تو لاشوں کی تعداد سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ ہندسے ہوتے ہیں لیکن اصل میں یہ جیتے جاگتے خاندان ہوتے ہیں جو کچھ خواب امیدیں لیے دنیا میں آتے ہیں ان سے وہ سب خواب نوچ کر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔

جب جنگ شروع ہوتی ہے تو انسان خوف محسوس کرتا ہے کہ کب کہاں کیا ہو جائے معلوم نہیں۔ اس کے گھر جب بمباری کرکے تباہ کر دیے جاتے ہیں، تو مہاجرین کے کیمپوں میں بیٹھا وہ سوچتا ہے جو آشیانہ اس نے تنکا تنکا کر سالوں میں بنایا تھا جنگی جنون میں مبتلا لوگوں نے بارود سے اڑا دیا۔

کسی نے سوچا ہی نہیں اس کا آشیانہ اس کی محبتوں کا امین تھا، اس کی جائے پناہ تھا۔ گولی باردو اور خون کی بو انسانی فضا میں پھیل جائے تو چرند پرند بھی اس علاقے سے ہجرت کر جاتے ہیں، پیڑ پھول پودے بھی مرجھا جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں بچوں کی چیخ پکار اور عورتوں کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے۔

اپنے گھر کو چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں رہنا روز انسان کو زندہ درگور کرتا ہے۔ امدادی ادارے بہت کوشش کرتے ہیں کہ سب کو مدد مل جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا، صاف پانی نہیں ہوتا، نہانے، رفع حاجت کے لیے غسل خانہ نہیں ہوتا اور خیمہ سردی روک پاتا ہے نہ گرمی سے بچا پاتا ہے۔ کوئی بیمار ہوجائے تو ادویات بھی دستیاب نہیں ہوتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بہت سے لوگ جب شورش زدہ علاقوں سے جان بچا کر پرامن ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ملک اپنے دروازے ان کے لیے بند کردیتے ہیں۔ کوئی اپنے زخم دکھا کر پناہ کی بھیک مانگتا ہے کوئی اپنے بھوکے بلکتے بچے کا واسطہ دیتا ہے ان چہروں پر جنگ کی کہانی ہولناکی سفاکی رقم ہوتی ہے لیکن سرحدی پولیس ان کے لیے دروازے نہیں کھولتی۔

کچھ صحرا میں ختم ہو جاتے ہیں تو کچھ سمندر برد ہو جاتے ہیں۔ جنگ کا ایندھن انسان ہیں، اس کو شروع کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اس کو شروع کرنا شاید آسان ہے لیکن ختم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

پہلے جنگ سرحد پر آتی ہے، پھر قصبوں دیہاتوں سے نکل کر ملکوں اور ملکوں سے نکل کربراعظموں میں پھیل کر سب کو جھلسا دیتی ہے۔

اس وقت انڈیا کا میڈیا دو ایٹمی ممالک کو جنگ میں دھکیلنے کے لیے نقارے بجا رہا ہے۔ کیا ٹھنڈے کمروں بیٹھے اینکرز جو لاکھوں میں تنخواہ لیتے ہیں اور وہ سیلبریٹیز جن کے لاکھوں میں فالورز ہیں، وہ سیاست دان جو محلوں میں رہتے ہیں، انہوں نے کبھی خود کوئی ایک گھٹنہ بھی جنگ میں گزرا ہے؟

کیوں اربوں کی آبادی والے خطے کو آگ خون کی لیپٹ میں لینا چاہتے ہیں؟ جس خطے میں اتنی غربت ہو اتنی مہنگائی ہو اتنی آلودگی ہو اتنی زیادہ آبادی ہو، وہاں کا میڈیا جنگ کو گلوریفائی کر رہا ہے۔

جنگ صرف جغرافیائی تباہی نہیں لاتی یہ انسانوں میں خوف، صدمہ، بےچینی پیدا کر دیتی ہے۔ جنگ کا سامنے کرنے والوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ پہلے انسان ڈپریشن میں جاتا ہے اس کے بعد پی ٹی ایس ڈی اس کے ساتھ مدتوں رہتا ہے۔

متواتر جنگی حملوں میں انسان معذور ہو جاتے ہیں کوئی بارودی سرنگ کی وجہ سے ٹانگ کھو بیٹھتا ہے تو کوئی پیلٹ گن کی وجہ سے نابینا ہو جاتا ہے۔ کوئی ملبے تلے دب کر اپاہج ہو جاتا ہے تو کوئی ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔

شورش زدہ علاقوں میں وبائیں پھیل جاتی ہیں جن میں ہیضہ، یرقان، چکن پاکس، فلو، ملیریا دیگرشامل ہیں۔ ادویات اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

جنگ انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیتی ہے، پھر وہ چیزیں دوبارہ تعمیر نہیں ہو پاتیں۔ جنگ جہاں جدید تعمیرات کا نقصان دیتی ہے وہ دوسری طرف آثار قدیمہ کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ جنگوں میں خاندان بکھیر جاتے ہیں بچے یتیم ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے بنیادی حقوق سلب ہو جاتے ہیں، جن میں تعلیم، اچھی خوراک، پیار محبت اور کھیل کود شامل ہے۔

جنگ اپنے ساتھ معاشی بدحالی بھی لاتی ہے اور جو قوم معاشی طور پر خود مختار نہ ہو وہ محکوم ہو جاتی ہے۔ جنگ زدہ خطے میں خوراک اور پانی ختم ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب جنگ لڑنے کے بھی پیسے ختم ہو جاتے ہیں اور خطے کا کنٹرول حکومتوں کے ہاتھ سے نکل کر گروہوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گروہ بہت سفاک ہوتے ہیں یہ عورتوں کو ریپ کا نشانہ بناتے ہیں اور لوٹ مار قتل غارت کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔

جنگ کے کچھ فوری نتائج ہوتے ہیں کچھ دوررس، لیکن ان میں فائدہ کسی کا نہیں ہوتا صرف نقصان ہی نقصان ہے۔

جنگ ثقافت فنون لطیفہ محبت پیار ادب اور تخیلقی عمل کو نگل لیتی ہے اور پیچھے صرف پنجر اور بنجر زمین رہ جاتی ہے۔ آگے چل کر خطے میں اندرونی خانہ جنگی، قحط، جنسی تشدد، بیماریاں، معذوری، غذائی قلت اس وطن کے باسیوں کا نصیب بن جاتی ہیں۔

اس وقت دونوں ممالک کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا ایک ارب سے زائد آبادی والا خطہ کسی جنگ کے لیے تیار ہے؟

جنگ اپنے ساتھ صرف تباہی لاتی ہے، وقتی طور پر اس سے اشرافیہ اور جنگی جنون میں مبتلا افراد کی انا کو تسکین تو ملتی ہے لیکن عوام مرتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، ان کو ہجرت کرنا پڑتی ہے، عمارتیں تباہ ہو جاتی ہیں اور معاشی معاشرتی سماجی نظام بگڑ جاتا ہے۔

کیا دونوں ممالک پتھر کے زمانے میں جانا چاہتے ہیں، یا ترقی کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ میز پر مذاکرات کریں اور مسائل کا حل نکالیں۔ ایسے میدانوں میں جنگ کریں جن سے خطے کے عوام کی خوشحالی اور ترقی کی راہیں ہموار ہوں۔ ساحر لدھیانوی نے اسی نظم میں آگے چل کر لکھا تھا:

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں

امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ