سری لنکا: نئے صدر کا انتخاب 20 جولائی کو ہوگا

سری لنکا کے وزیر اعظم آفس نے پیر کو  کہا ہے کہ ملک کے صدر گوٹابایا راجا پکشے اور پوری کابینہ اتحادی حکومت کے لیے راستہ ہموار کرنے کی خاطر مستعفی ہو جائیں گے۔

سری لنکا کے سپیکر نے پیر کو بتایا کہ پارلیمنٹ 20 جولائی کو نئے صدر کا انتخاب کرے گی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سری لنکا کے وزیر اعظم آفس نے پیر کو  کہا ہے کہ ملک کے صدر گوٹابایا راجا پکشے اور پوری کابینہ اتحادی حکومت کے لیے راستہ ہموار کرنے کی خاطر مستعفی ہو جائیں گے۔

اس سے پہلے ہزاروں مظاہرین نے صدر اور وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا۔ تباہ کن معاشی بحران کے تناظر میں ہفتے کو ہونے والے زبردست مظاہروں کے بعد پارلیمنٹ کے سپیکر نے کہا کہ راجا پکشے بدھ کو مستعفی ہو جائیں گے۔ تاہم راجاپکشے کی جانب سے یا ان کے ارادے کے حوالے سے براہ راست کوئی بات سامنے نہیں آئی۔

وزیر اعظم رانیل وکریمے سنگھے کا کہنا ہے کہ وہ کل جماعتی عبوری حکومت کو ذمہ داری سنبھالنے کی اجازت دینے کے لئے بھی عہدہ چھوڑ دیں گے۔

وزیر اعظم  کے دفتر کے مطابق راجا پکشے نے وزیر اعظم کو اپنے استعفے کے ارادے کی تصدیق کر دی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کل جماعتی حکومت بنانے کا معاہدہ طے پانے کے بعد پوری کابینہ مستعفی ہو جائے گی۔

دوسری جانب مرکزی بینک کے گورنر نے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ سیاسی عدم استحکام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے سری لنکا کے مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

گورنر پی نندا لال ویرسنگھے نے اشارہ دیا کہ وہ عہدے پر کام جاری رکھیں گے حالاں کہ انہوں نے مئی میں کہا تھا کہ  دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی والے ملک میں سیاسی استحکام نہ آیا تو وہ مستعفی ہو سکتے ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ مرکزی بینک کی سربراہی جاری رکھیں گے؟ ویرسنگھے نے کہا: ’ایک بار جب مجھے چھ سال کے لئے مقرر کیا گیا ہے تو یہ میری ذمہ داری بنتی ہے۔‘

ادھر احتجاجی تحریک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک صدر اور وزیر اعظم عہدے چھوڑ نہیں دیتے مظاہرین دارالحکومت کولمبو میں واقع ان کی رہائش گاہوں پر قابض رہیں گے۔

گذشتہ ہفتے کے اختتام پر مظاہرین صدر کے گھر میں سوئمنگ پول میں نہاتے رہے۔ ان کے بیڈ پر کودتے رہے۔ باری باری ٹریڈ مل استعمال کی اور صوفوں پر براجمان رہے۔

پیر کو کولمبو میں امن رہا جب کہ سیکڑوں افراد صدر کے سیکریٹریٹ ان کی رہائش گاہ میں اور نوآبادیاتی دور کی دوسری عمارتوں میں گھومتے پھرتے رہے۔ پولیس نے کسی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

اپریل کے اوائل سے صدر کی رہائش گاہ کے باہر احتجاج کے مقام پر موجود 31 سالہ جوڈ ہنسانا نے کہا کہ’ہم اس صدر کے جانے تک کہیں نہیں جا رہے اور ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہے جو عوام کے لیے قابل قبول ہے۔‘

مظاہرے میں شامل ایک شہری  دوشانتا گنسنگھے نے بتایا کہ ایندھن کی کمی کی وجہ سے راستے کا کچھ حصہ پیدل چل کر 130 کلومیٹر دور قصبے سے پیر کو کولمبو پہنچے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر کے دفتر کے باہر پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھے 28 سالہ گنسنگھے کے بقول: ’میں بہت تھکا ہوا ہوں میں بمشکل بول سکتا ہوں۔ میں نے  سارے راستے سے اکیلے سفر کیا کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ ہمیں اس صورت حال کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس حکومت کو گھر جانا چاہیے اور ہمیں بہتر رہنماؤں کی ضرورت ہے۔‘

دوسری جانب وزیر اعظم رانیل وکریمے سنگھے کا کہنا کہ ایک ارب ڈالر کے قرضے کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔

وزیر اعظم کے مطابق: ’ہم نے مزید ایک ارب ڈالر کی درخواست کی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ سری لنکا 50 کروڑ ڈالر کے لیے بھارت سے مذاکرات کر رہا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی جا سکیں۔

بھارت سری لنکا کو جنوری میں 40 کروڑ ڈالر اور اس کے بعد دو حصوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرضہ دے چکا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سری لنکا کی پولیس نے کہا ہے کہ مظاہرین کے صدارتی محل میں داخلے کے بعد وہاں سے فرار ہونے والے صدر نے جو لاکھوں سری لنکن روپے چھوڑ دیے تھے وہ پیر کو عدالت کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

ہفتے کو صدارتی محل میں داخل ہونے کے بعد مظاہرین کو وہاں سے  ایک کروڑ 70لاکھ سری لنکن روپے سے زیادہ رقم ملی جو پولیس کے حوالے کر دی گئی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا