بنگلہ دیش کی علیل سابق وزیراعظم خالدہ ضیا چار ماہ کے علاج کے بعد منگل کی صبح لندن سے وطن واپس پہنچ گئیں، جس کے بعد عبوری حکومت پر انتخابات کے انعقاد کے لیے دباؤ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
جب سے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو گذشتہ سال اگست میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والی عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹایا گیا، یہ جنوبی ایشیائی ملک نوبیل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت میں قائم حکومت کے تحت چل رہا ہے۔
حسینہ واجد کی سخت حریف خالدہ ضیا کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) عبوری سربراہ محمد یونس کی حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ دسمبر میں عام انتخابات کروا کے ملک کو دوبارہ جمہوری نظام کی طرف لے جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں، متعدد اپوزیشن جماعتوں بشمول خالدہ ضیا کی بی این پی نے یا تو انتخابات کا بائیکاٹ کیا یا پھر حکام پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
شیخ حسینہ واجد کی برطرفی کو بہت سے لوگوں نے جمہوریت کی بحالی کے موقعے کے طور پر خوش آمدید کہا، لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران نئی حکومت کی جانب سے جلد انتخابات کے انعقاد کے عزم پر شکوک و شبہات اور بے یقینی نے جنم لیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات یا تو دسمبر میں ہوں گے یا اگلے سال جون تک اور اس کا انحصار مختلف شعبوں میں اصلاحات میں پیش رفت پر ہے۔
خالدہ ضیا کے بڑے بیٹے طارق رحمان لندن میں جلاوطنی کے دوران کئی سال جماعت کی قیادت کے قائم مقام سربراہ کے طور پر کر رہے ہیں۔
خالدہ ضیا منگل کی صبح 10 بج کر 43 منٹ پر جب ڈھاکا کے مرکزی ہوائی اڈے پر پہنچیں تو بڑے پارٹی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ وہیل چیئر پر بیٹھی خالدہ ضیا نے مسکراتے ہوئے بار بار دایاں ہاتھ اٹھا کر لوگوں کے سلام کا جواب دیا۔
حضرت شاہ جلال بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر ان کی واپسی پر ان کے استقبال کے لیے ہجوم جمع ہو گیا۔ اس موقعے پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ ہزاروں کارکن، جن میں سے بہت سے بنگلہ دیش اور بی این پی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ تقریباً نو کلومیٹر طویل سڑک کے دونوں طرف موجود تھے، جو خالدہ ضیا کے مہنگے علاقے گلشن میں واقع گھر کی جانب جاتی ہے۔
اپنی دو بہوؤں کے ہمراہ خالدہ ضیا خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے وطن واپس پہنچیں، جو قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے فراہم کی۔ انہوں نے ہی جنوری میں انہیں لندن لے جانے کا بندوبست بھی کیا۔ خالدہ ضیا کئی بڑے طبی مسائل کا شکار ہیں۔ انہوں نے کسی عوامی اجتماع میں شرکت نہیں کی۔
خالدہ ضیا کی ملک میں موجودگی ان کی جماعت کے لیے علامتی طور پر بہت اہم ہے، جب کہ شیخ حسینہ اس وقت انڈیا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ نے 1991 سے، جب ملک آمر صدر ایچ ایم ارشاد کی برطرفی کے بعد جمہوریت کی طرف واپسی آیا، باری باری وزیراعظم کے طور پر حکومت کی۔
خالدہ ضیا تین بار ملک کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ انہوں نے دو بار اقتدار کی پانچ سالہ مدت مکمل اور ایک بار چند مہینوں تک وزیراعظم رہیں۔
شیخ حسینہ کے 15 سالہ دور اقتدار کے دوران خالدہ ضیا کو کرپشن کے دو مقدمات میں 17 سال قید کی سزا سنائی گئی اور جیل بھیجا گیا۔ ان کی جماعت کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیا کے خلاف الزامات سیاسی بنیادوں پر عائد کیے گئے۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے اس الزام کو مسترد کیا۔ بعد میں خالدہ ضیا کو اس شرط پر رہا کر دیا گیا کہ وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گی۔
خالدہ ضیا سابق فوجی سربراہ اور صدر ضیاالرحمان کی بیوہ ہیں، جنہیں 1981 میں قتل کر دیا گیا تھا جبکہ شیخ حسینہ واجد، شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں، جنہوں نے 1971 میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک کی قیادت کی۔