ایران سعودی عرب تعلقات میں بہتری کا خواب

ایران شام کی سرزمین کو اسرائیل کے ساتھ حساب چکتا کرنے اور تہران کے عسکری ٹھکانوں کو لیوانٹ ریجن تک پھیلانے کے لیے پراکسی میدان جنگ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

سعودی شاہی محل کی جانب سے 14 دسمبر 2021 کی جاری کردہ اس تصویر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سمیت خلیج تعاون تنظیم کے ممالک کے رہنماؤں کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی بندر الجلود)

یہ تحریر مصنف کی آواز میں سننے کے لیے کلک کیجیے

 

ایرانی صدر ابراہیم ریئسی کی جانب سے یہ بلند آہنگ دعویٰ ایک عرصے سے سنائی دے رہا ہے کہ خلیجی ریاستوں سمیت ہمسایہ ملکوں سے تعلقات میں بہتری تہران کی ترجیحات میں شامل ہے۔ لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس ضمن میں اب تک سامنے آنے والے بیانات خوشمنا زبانی جمع خرچ ہی ثابت ہو رہے ہیں۔

ایران کی اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب کے سابق کمانڈر اور سپریم لیڈر کے اعلیٰ اختیاراتی فوجی مشیر میجر جنرل یحیی رحیم صفوی بھی اپنے اعلانات میں یہ تاثر دینے میں والوں میں پیش پیش رہے ہیں کہ تہران، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری جیسے سفارتی اقدامات سے متعلق سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔

تہران وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے بھی ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ’مسلم دنیا اور خطے کے دو اہم ملک سعودی عرب اور ایران علاقائی امن، استحکام اور ترقی کی خاطر تعمیری مذاکرات کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔‘

اسی تناظر میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کا یہ بیان بھی سامنے رہنا چاہئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک (سعودی عرب) صدر ریئسی کی انتظامیہ کی کاوشوں کو زمینی حقائق میں تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘

مذاکرات میں نشیب وفراز

کشیدہ تعلقات کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان گذشتہ برس اپریل سے مذاکرات کا جو سلسلہ جاری تھا وہ اس سال 13مارچ کو بغیر کسی وجہ کے تعطل کا شکار ہو گیا۔

مذاکرات تعطلی کا یہ مرحلہ ریاض کی جانب سے مختلف سنگین جرائم میں ملوث 81 افراد کے سرقلم کیے جانے کے واقعے کے ایک دن بعد پیش آیا۔ مملکت میں اتنی بڑی تعداد میں پھانسیوں کی سزا پر عمل درآمد کے بعد ایران سمیت مختلف حکومتوں نے ناک بھوں چڑھائی۔

ایران نے مملکت میں اجتماعی پھانسیوں کو ’انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیا جس پر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات دوبارہ کشیدہ ہونے لگے۔

ماضی میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات اس وقت بگاڑ کا شکار ہوئے جب ریاض نے ایک سرکردہ شیعہ عالم دین شیخ نمر نمر کو 2016 میں سزائے موت دی جس پر ایران کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ پھانسی کی مذمت میں تہران اور مشہد کے اندر واقع سعودی عرب کے سفارت مشنز پر حملے کیے گئے۔

تعلقات میں بہتری کے لیے جاری مذاکرات میں تعطل کا حالیہ مرحلہ گذشتہ ماہ اس وقت پیش آیا جب عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ترکی کے انطالیہ ریجن میں ہونے والے ایک سفارتی فورم کو بتایا کہ تہران اور ریاض کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور بغداد کی میزبانی میں ہونے جا رہا ہے۔

تاہم دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی کا تازہ دور ایرانی پاسداران انقلاب کی طرف سے عراقی شہر اربیل میں اسرائیل کی مبینہ تنصیبات پر 13مارچ کو حملے کے بعد دیکھنے میں آیا اور امکانی طور پر سعودی عرب، ایران کے درمیان مذاکرات اسی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئے۔

مذاکرات کے گذشتہ ادوار میں ایران ۔ سعودی عرب  نے بڑی حد تک اپنے اختلافات پر قابو پا لیا تھا اور دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بحالی کے قریب پہنچ چکے تھے۔

بدقسمی سے سابق ایرانی صدور بشمول نام نہاد اعتدال پسند حسن روحانی نے بھی خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ایسے ہی دعوے کیے۔

لیکن جناب روحانی کے دور حکومت میں خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات ابتری کا شکار ہوئے کیونکہ ایران نے خطے میں اپنی تباہ کن فوجی مہم جوئی بلا روک جاری رکھی، ایسے میں تعلقات میں بہتری کا دعویٰ محض خواب ہی رہا۔

خطے کی دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے دعوؤں کے برعکس صدر ریئسی کی انتظامیہ نے تہران کی پالیسی میں تبدیلی کے لیے ابھی تک کوئی عملی روڈ میپ وضع نہیں کیا۔

ایرانی پاسداران انقلاب آج بھی یمن میں حوثیوں کی جنگ کو سپانسر کر رہے ہیں۔ یمن میں سرگرم باغی گروپ کو تہران کی جانب سے اسلحہ فراہمی جیسے اقدامات روز بروز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

سعودی عرب اور امارات کے حساس اہداف کو نشانہ بنانے والے جدید ڈرونز اور میزائل ممکنہ طور پر ایران سے ہی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ایران دہشت گرد حوثی گروپ کے ساتھ یمن کی سرکاری حکومت کے طور پر معاملات کر رہا ہے۔

تہران کی جانب سے یمن کو اسلحہ سمگلنگ کا سلسلہ بھی بلا توقف جاری ہے۔ حوثی انہی ہتھیاروں کو سعودی عرب اور امارات کے خلاف اپنے جارحانہ اقدامات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر شام میں صدر رئیسی کی انتظامیہ عرب قوم اور اس کی سرزمین کو اسرائیل کے ساتھ اپنا حساب چکتا کرنے کے لیے پراکسی میدان جنگ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اس جنگ کا مقصد ایران کے عسکری ٹھکانوں کو لیوانٹ ریجن تک پھیلانا ہے۔

شام میں عدم استحکام سے فائدہ اٹھا کر ایرانی پاسداران انقلاب اور اسی گروپ کے بیرون ملک فوجی آپریشنز کے نگران القدس بریگیڈ نے اسرائیلی سرحد کے قریب اپنی عسکری موجودگی یقینی بنا لی ہے۔

پاسداران انقلاب نے شام کے اندر مستقل فوجی اڈے بھی بنا رکھے ہیں۔ نیز یہ گروپ شام کے کئی اہم ہوائی اڈوں کو اپنے تصرف میں لا رہا ہے۔

صدر ریئسی انتظامیہ کے تحت پاسداران انقلاب عراق کی سرزمین کو پراکسی میدان جنگ کے طور پر کامیابی سے استعمال کر رہا ہے تاکہ اپنے انقلابی مقاصد اور توسیع پسندانہ عزائم کو کامیابی سے آگے بڑھا سکے۔

عراق میں سرگرم ایرانی ملیشیا مذہب کو بھی مخصوص فرقہ وارانہ مقاصد کی ترویج کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایرانی حکومت کی نگرانی میں سرگرم ملیشیائیں شہریوں کے درمیان مختلف تنازعات اور جرائم کے فروغ میں بھی ملوث پائی جاتی ہیں۔

جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے، صدر ریئسی نے کوئی ایسا عندیہ ظاہر نہیں کیا جس سے پتا چلتا ہو کہ ان کی حکومت جوہری سرگرمیوں میں کمی لا رہی ہے۔ یہ صورت حال خطے کے ملکوں کے لیے باعث تشویش ہے۔

صدر روحانی کے دور حکومت میں ایران کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت ایک برس کی دوری پر تھی لیکن گذشتہ برس سے ایرانی منصب صدارت پر جناب رئسیی کے فائز ہونے کے بعد اب ایران مکمل جوہری ہتھیار تیاری سے صرف چند ہفتوں کے فاصلے پر ہے۔

ایرانی صدر اگر اپنے ہمسایہ ملکوں سے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں تو انہیں ہمسایوں کی تشویش کا جواب دینا ہو گا اور اس مقصد کے لیے تہران کی خارجہ پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کے بغیر یہ اقدام ممکن نہیں ہے۔

یہاں اس امر کی جانب اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایران اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کے خطے کی جیو پولیٹکل، معاشی اور سکیورٹی منظرنامے پر خاطر خواہ مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

ایرانی حکومت ملاییت پر مبنی سوچ اور نظریاتی انداز فکر چھوڑ کر اگر عرب قومیتوں کے ساتھ بہتر باہمی تعلقات کو اپنی خارجہ پالیسی ترجیحات میں شامل کر لیتی ہے تو اس کے اثرات تہران تک بالخصوص اور پورے خطے تک بالعموم پہنچنے کا امکان یقینی ہے۔

 زمینی حقائق کی صورت میں یہ خوشنما منظرنامہ اسی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے جب تہران شیعہ ملیشیا گروپوں اور پورے ریجن میں اپنی پراکسیز کی مالی معاونت ترک کر دے۔

تہران اگر خلیجی ریاستوں اور دوسرے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے تو ایرانی رجیم کو زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر اپنی علاقائی پالیسیوں میں حقیقی تبدیلی لانا ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ